تعبیر

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

2 posters

    معرکۂ مرجاء ‘ صوبہ ہلمند(افغانستان)

    اعجازالحسینی
    اعجازالحسینی


    Posts : 184
    Join date : 17.02.2010

    معرکۂ مرجاء ‘ صوبہ ہلمند(افغانستان) Empty معرکۂ مرجاء ‘ صوبہ ہلمند(افغانستان)

    Post by اعجازالحسینی Mon Feb 22, 2010 9:35 pm

    جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ ......
    افغانستان کے صوبہ ہلمندمیںطالبان کے مضبوط مرکز مرجاء
    کو فتح کرنے کیلئے امریکی اتحادی افواج مکمل تیاریاں کرکے حملہ آور ہو چکی ہیں۔یہ
    جارحانہ کاروائی تقریبأ پندرہ ہزار پیادہ فوج سرانجام دیگی‘ جسے بیس ہزار افغان فوج اور پولیس کے علاوہ افغانستان میں موجودتمام امریکی و نیٹو فضائی قوت کی مدد بھی حاصل ہوگی۔اس کارروائی کا بنیادی ہدف مرجاء ہے جسے ’’ طالبان کے مضبوط مرکز‘‘ کی حیثیت حاصل ہے ۔
    مرجاء پر قبضہ کرنے کے بعد دیگر علاقوں میں انہیں شکست دینے کی کارروائیوں کی راہ ہموار کرناہے جس سے افغانستان کے مضافاتی علاقوں میں حکومت کا کنٹرول بحال ہوجائیگا ۔ بلاشبہ طالبان کیخلاف کاروائی کرنے کی یہ حکمت عملی انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔طالبان کو افغانستان کے چونتیس صوبوں میں سے تیس پر کنٹرول حاصل ہے۔
    مرجاء اور ملحقہ علاقے کی گوگل سے لی گئی اس تصویر سے اس جنگ کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔
    مرجاء جوکہ ہلمند کے صوبائی مرکز لشکر گاہ کے مغرب میں تقریبأ پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے‘ ایک ہموار اور ریکستانی علاقہ ہے جہاںاکا دکا اوربکھرے ہوئے مٹی کے بنے ہوئے گھر ہیں ۔ جنوب اور مغرب کی جانب سبزپٹی ہے جسے دریائے ہلمند سیراب کرتا ہے۔یہاں بڑے بڑے زرعی فارم اور باغات ہیں۔ سبز پٹی کے علاقے میں چھ تا سات ہزار کے لگ بھگ آبادی ہے۔تمام علاقہ میدانی ہے جو قلعہ بند ہو کریا طالبان کی پسندیدہ گوریلا جنگ کیلئے قطعأموزوں نہیں ہے۔اس کھلے اور وسیع علاقے میں اتحادی فضائیہ اور مشینی متحرک دستوں کیلئے طالبان کی نقل و حرکت اور جنگی کاروائیوں کا سدباب کرنا بہت آسان ہوگا۔
    اب رہا یہ سوال کہ جب اتحادی افواج کو علاقے میں کسی قسم کی شدید مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا تواس قدر بھاری تیاریاں کرکے اس علاقے کو فتح کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
    دراصل اس فیصلے کے پیچھے ایک نفسیاتی اور تاریخی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ ماضی میں اس علاقے میں داخل ہونے کے بعد کوئی لشکر صحیح سلامت واپس نہیں گیا اور اگر اتحادی افواج ان علاقوں پر قابض ہوجاتی ہیں اور طالبان پسپا ہو جاتے ہیں تو اتحادی افواج کی نفسیاتی برتری قائم ہو جائیگی اور دوسرے صوبوں میں اس طرح کی کارروائی کرکے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
    طالبان گذشتہ تیس سال سے شمالی خطے کے صحرائی اوردشوار گزار پہاڑی علاقوں میں جنگ لڑنے میں مہارے حاصل کر چکے ہیں۔وہ بہادر اور جانباز مجاہد ہیں جنہیں اپنے آپ پر اعتماد اور قابض افواج کیخلاف فتح مند ہونے کا یقین کامل ہے۔ وقت اور حالات مکمل طور پر ان کا ساتھ دے رہے ہیں‘ لہذا مرجاء کے معرکے میں انکی حکمت عملی کو سمجھنا بہت آسان ہے۔
    ایک حکمت عملی یہ ہے کہ انہوں نے مرجاء کے دفاع کیلئے مشہور کمانڈر ملا عبدالرزاق کی کمان میں ہزار یا دوہزارجنگجو چھوڑے ہیں جو آخری گولی اور آخری سانس تک لڑیں گے اور اتحادی افواج کو زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچائیں گے اور اس پورے علاقے میں پھیلے ہوئے منتشر لڑاکا دستوں سے علاقے کا دفاع کرینگے اور:
    Improvised Engineering Devices - (IEDs)
    ’ ’ عمر بم‘‘ اور بوبی ٹریپ کے استعمال سے حملہ آوروں کیخلاف کامیاب مدافعت کر ینگے۔ 2006ء میں اسرائیل کیخلاف حزب اللہ کا اپنایا گیا زمین دوز دفاع کا تجربہ بھی مزاحمت کی کامیابی کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔چار دنوں سے جاری اس جنگ میں یہی حکمت عملی سامنے آئی ہے۔
    ہلمندسے ملحقہ علاقوں میں طالبان کے لڑاکا دستوں کی تعداد دس سے بارہ ہزار کے قریب ہے جو لڑائی کے مرکز کے ارد گرد پھیل کر اتحادی افواج کے خلاف مختلف اطراف سے حملے کرکے انہیں الجھائے رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ساتھ ہی انکے رسد ورسائل کی راہیں مسدود کردینگے۔ ایک طرف تو مرجاء کا معرکہ جاری ہوگا جبکہ طالبان اپنے زیر کنٹرول صوبوں میں اتحادی افواج کیخلاف کاروائیاں تیز کر کے انکی پریشانی اور مشکلات میں اضافہ کرتے رہیں گے۔
    1898
    ء میں تاج برطانیہ کو دی گئی عبرت ناک شکست کی کہانی تو نہیں دہرائی جا سکے گی کیونکہ اتحادی فوجوں کی فضائیہ انہیںمکمل تباہی سے بچا لے گی البتہ اتحادی افواج کو مرجاء سے بے آبرو ہو کر نکلنا پڑیگا۔
    مرجاء اورافغانستان میں جاری جنگ کا نتیجہ دو متصادم قوت ارادی کے درمیان بڑا واضح ہے۔ اتحادی افواج ہمت ہار چکی ہیں اور شکست کو اپنے سامنے دیکھ رہی ہیںکیونکہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے جبکہ طالبان اپنے وطن کے دفاع ‘ آزادی اور خودمختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ طالبان کو اپنے جذبے کی صداقت اور اللہ تعالی کی ذات با برکات پرمکمل اعتماد ہے اور یہی وہ ایمانی طاقت ہے جس پر بھروسہ کرتے ہوئے انہوں نے گذشتہ تیس سالوں میں جدید اسلحہ سے لیس دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کوناکوں چنے چبوائے ہیں۔
    افغان مجاہدین کی فوج سایوں کی مانند ہے جسے
    (Shadow Army)
    کا نام دیا گیا ہے ۔اس شیڈو آرمی نے ایک غیر منظم جنگ
    (Asymmetric Warfare) کے ذریعے عالمی استعماری طاقتوں کے توسیع پسندانہ اور عالمی برتری کے مزموم عزائم کو خاک میں ملادیا ہے اور یہی وہ طاقت ہے جس نے نئے عالمی نظام کے خدوخال متعین کئے ہیںاورمولانا جلال الدین رومی کی یہ پیش گوئی سچ ثابت کر دکھائی ہے کہ: ’’افغانستان سے آنیوالے غیر معمولی صلاحیت کے حامل لوگ دنیا کا نظام بدل دیں گے۔‘‘
    2001ء میں جب افغانستان پر اتحادی فوجوں نے قبضہ کیا تو جلال الدین حقانی پاکستان آئے اور میرے مشورے کے جواب میں کہا: ’’ہم نے اپنی آزادی تک جنگ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ ہم قابض فوجوں کے آگے کبھی نہیں جھکیں گے کیونکہ ہماری قومی اقدار و روایات ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔
    آزادی ہمارا اولین مقصد اور آخری منزل ہے اور انشاء اللہ ہم ہی فاتح ہونگے۔‘‘ ہمارے ایک دوست نے جو حال ہی میں افغانستان سے واپس آئے ہیں مجھے بتایا کہ:
    ’’میں نے طالبان کو آپس میں متحد اور پر سکون پایا ‘ سلجھے ہوئے‘ ٹھنڈے مزاج والے یہ لوگ اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اپنے مقصد پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت اور حالات کا رخ انکی جانب ہے جبکہ یہی وقت اورحالات جارح افواج کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں۔‘ ‘
    صاف ظاہر ہے کہ اگر مرجاء کے علاقے پراتحادی فوجیں قابض بھی ہو جائیں لیکن پھر بھی وہ بازی ہار جائینگی بلکہ انہیں بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑیگا۔ اتحادی افواج کا یہ اقدام کسی بھی زاویے سے قیام امن کی خاطر مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ دانش کا تقاضا ہے کہ ان حالات میںجبکہ طالبان کو اتحادی افواج پر واضح سبقت حاصل ہے ‘ اور آئے دن مزید قبائل ان کی صفوں میں شامل ہوکر انکی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں‘امریکہ اوراسکے اتحادی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان میں قیام امن کے عظیم تر مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے طاقت کے زور پر ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کریں۔
    ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جن کا مقصد القاعدہ کو طالبان سے علیحدہ کردینا ہے۔ مگر حقیقت میں ایسا ہو گا نہیں کیونکہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو طالبان آج سے نو سال قبل اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرکے اپنے ملک کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا لیتے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ طالبان کے درمیان ’’اچھے طالبان‘‘ اور ’’برے طالبان‘‘ کی کوئی تفریق نہیں ہے بلکہ وہ سب ایک ہیں جو ملا عمر کے پیرو کار ہیں۔ انہیں کسی قیمت پر خریدا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ بکائو مال ہیں۔ اس لئے راہ راست صرف ایک ہے کہ اس حقیقت کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہوئے قیام امن کے عظیم تر مقصد کی خاصر اقدامات کئے جائیں۔
    افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے خاص اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن سے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے افغانستان سے پرامن انخلاء کے علاوہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کیلئے اقتدار کی سولین نظام کی جانب منتقلی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔’افغانستان میں قابض فوجوں کی شکست کے واضح آثار‘ نظر آرہے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ’ اتحادی فوجوں کے افغانستان سے نکلنے‘ کی جامع حکمت عملی کا اعلان کیا جائے کیونکہ یہی ایسا راستہ ہے جو افغانستان میں قیام امن کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔اس مقصد کی خاطر درج ذیل اقدامات اٹھانے ضروری ہیں۔
    ’’قابض افواج افغانستان سے نکلنے کے نظام الاوقات کا تعین کرتے ہوئے فائر بندی کا اعلان کریں۔طالبان اور شمالی اتحادکے ساتھ مذاکرات کرکے ایک لوئی جرگہ تشکیل دیا جائے جو تین سال کے عرصے کیلئے عارضی حکومت (Interim Government)کے قیام کا فیصلہ کرے جس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ آئندہ انتخابات سے قبل مردم شماری کے ذریعے فریقین کی حیثیت کا تعین کرے کہ کون کتنے پانی میں ہے؛
    ’’ملک کیلئے نیاآئین بنائے؛ اداروں کی تعمیر نو؛ بنیادی ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر تعمیراور 2001ء میں منعقد ہونے والی بون کانفرنس سے بگڑے ہوئے نسلی امتیاز کے توازن کو درست کرے۔اسکے بعد 2013ء میںعام انتخابات منعقد کرائے جس کے بعدعنان اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردیا جائے۔‘‘
    افغانستان میں اتحادیوں کی جنگ میںطاقت کے محور‘ پاکستانی اور افغانی طالبان ہیں‘ انہیں اعتماد میں لیا جانا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہی طاقتیں قیام امن کے حوالے سے اصل کردار ادا کر سکتی ہیں۔ قریب ترین پڑوسی ممالک چین اور ایران کو بھی اس مقصد کیلئے شریک کار بنایا جانا لازم ہے۔
    أضواء
    أضواء
    Administrater
    Administrater


    Posts : 762
    Join date : 14.01.2010
    Location : دمــام (سعوديــه )

    معرکۂ مرجاء ‘ صوبہ ہلمند(افغانستان) Empty Re: معرکۂ مرجاء ‘ صوبہ ہلمند(افغانستان)

    Post by أضواء Thu Feb 25, 2010 9:29 am

    لاحول ولا قوة الا بالله العلى العظيم ...

    اللهم اعز الاسلام و المسلمين

      Current date/time is Mon May 20, 2024 1:52 am