دل کو چھو جاتی ہے رات کی آواز کبھی
چونک اٹھتا ہوں کہیں تم نے پکارا ہی نہ ہو
مرنے کے بعد بھی میری آنکھیں کھلی رہیں
عادت پڑی ہوئی تھی تیرے انتظار کی
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو
آراستہ محرابیں آنگن میں سجا رکھو
آراستہ محرابیں آنگن میں سجا رکھو
پر شیخ نے جا یوں ہی تا صبح بچھا رکھو
ہے رات اندھیری تو چوکھٹ پہ دیا رکھو
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو! گلدستے بنا رکھو! گلدستے بنا رکھو!
یاد آہی گئی ہوگی اب آہی رہا ہوگا
ڈر جائے نہ رستے میں سنسان پڑا ہوگا
مدت سے نہیں آیا مدت سے نہیں آیااااااا!!!!!
مدت سے نہیں آیا اب یاد بھی کیا ہوگا
دہلیس پہ جا بیٹھوں گھر بھول گیا ہوگا
آکر نہ پلٹ جائے دروازہ کھلا رکھو
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو
آراستہ محرابیں آنگن میں سجا رکھو ! آنگن میں سجا رکھو !
کیا میری لگن اب تک ویسی ہی اسے ہوگی
کیا ملکے اسے اب بھی ویسی ہی خوشی ہوگی
کیا چاہ میری اسکو ویسی ہی ابھی ہوگی
یا مجھ سے بچھڑ کر اب کچھ اور بڑھی ہوگی
نہ جانے کہآں جائےنہ جانے کہاں جائے
دروازہ کھلا رکھو
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو
آراستہ محرابیں آنگن میں سجا رکھو ! آنگن میں سجا رکھو !
ایسا نہ ہو کہ یہ شب پھر یوں ہی گزر جائے
تا صبح یوں ہی تڑپوں تب بھی نہ مگر آئے
جب بھی کوئی آہٹ ہو دم آنکھ میں آجائے
رہ رہ کے نظر اٹھےمایوس پلٹ جائے
شاید مگر آجائےشاید مگر آجائے
دروازہ کھلا رکھو
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو
آراستہ محرابیں آنگن میں سجا رکھو ! آنگن میں سجا رکھو
چونک اٹھتا ہوں کہیں تم نے پکارا ہی نہ ہو
مرنے کے بعد بھی میری آنکھیں کھلی رہیں
عادت پڑی ہوئی تھی تیرے انتظار کی
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو
آراستہ محرابیں آنگن میں سجا رکھو
آراستہ محرابیں آنگن میں سجا رکھو
پر شیخ نے جا یوں ہی تا صبح بچھا رکھو
ہے رات اندھیری تو چوکھٹ پہ دیا رکھو
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو! گلدستے بنا رکھو! گلدستے بنا رکھو!
یاد آہی گئی ہوگی اب آہی رہا ہوگا
ڈر جائے نہ رستے میں سنسان پڑا ہوگا
مدت سے نہیں آیا مدت سے نہیں آیااااااا!!!!!
مدت سے نہیں آیا اب یاد بھی کیا ہوگا
دہلیس پہ جا بیٹھوں گھر بھول گیا ہوگا
آکر نہ پلٹ جائے دروازہ کھلا رکھو
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو
آراستہ محرابیں آنگن میں سجا رکھو ! آنگن میں سجا رکھو !
کیا میری لگن اب تک ویسی ہی اسے ہوگی
کیا ملکے اسے اب بھی ویسی ہی خوشی ہوگی
کیا چاہ میری اسکو ویسی ہی ابھی ہوگی
یا مجھ سے بچھڑ کر اب کچھ اور بڑھی ہوگی
نہ جانے کہآں جائےنہ جانے کہاں جائے
دروازہ کھلا رکھو
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو
آراستہ محرابیں آنگن میں سجا رکھو ! آنگن میں سجا رکھو !
ایسا نہ ہو کہ یہ شب پھر یوں ہی گزر جائے
تا صبح یوں ہی تڑپوں تب بھی نہ مگر آئے
جب بھی کوئی آہٹ ہو دم آنکھ میں آجائے
رہ رہ کے نظر اٹھےمایوس پلٹ جائے
شاید مگر آجائےشاید مگر آجائے
دروازہ کھلا رکھو
کچھ ہار پرو ڈالو گلدستے بنا رکھو
آراستہ محرابیں آنگن میں سجا رکھو ! آنگن میں سجا رکھو