رفیق ڈوگر
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک توحید اور شرک کے درمیان عظیم جنگ کی تفصیل ہے۔ 610ءکے موسم گرما کی ایک رات کے پچھلے پہر اللہ تعالیٰ نے محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اپنی زمین پر اور اپنے بندوں کے دلوں پر اپنی حاکمیت کے قیام کا مشن سونپا تھا اس وقت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی توحید کا پرچم اٹھا کر شرک کے مقابلے کے لئے میدان جہاد میں نکلے تھے۔ اس جنگ میں ایک طرف اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور دوسری طرف عرب کے اور ساری دنیا کے مشرک تھے ان کے بادشاہ‘ شہنشاہ اور سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج البلاغ کے قافلہ میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب اہل توحید شامل تھے۔ جزیرہ نمائے عرب کے سب شہروں‘ بستیوں‘ صحراﺅں اور ریگستان سے آئے ان لوگوں کے دلوں پر اور زمینوں پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو چکی تھی۔ اللہ نے اکیلے شرک کے ان علاقوں سے سب لشکروں کو شکست فاش دیدی تھی۔ شرک کے سارے سپاہیوں جرنیلوں اور محافظوں کے دل و دماغ توحید نے فتح کر لئے ہوئے تھے۔
اس جنگ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو ہی ہتھیار تھے ایک اللہ کی کتاب قرآن اور دوسرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی کردار۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ”جو بھی کوئی اللہ کی کتاب اور میری سنت کی پیروی کرے گا وہ کبھی راہ راست سے نہیں بھٹکے گا“ لہٰذا جو بھی کوئی راہ راست پر قائم رہنا چاہتا ہے اس کے لئے قرآن کریم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک میں مکمل رہنمائی ہے۔ شرک کے خلاف اس جنگ عظیم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ کردار سے جو بھی کوئی روشنی حاصل کرنا چاہے اس کے لئے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کی حاکمیت کے قیام کے مختلف مراحل ہیں اور ان مراحل کی مشکلات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی سے آگاہی لازم ہے۔
ہر تحریک کی بنیاد ایک نظریہ پہ ہوتی ہے جس بھی کسی تحریک کا تعلق اللہ کی زمین پر بسنے والے انسانوں سے ہو اس کا ایک قائد ہوتا ہے جو اس نظریہ کی بنیاد پر تحریک منظم کرتا اور چلاتا ہے نظریہ توحید کی تحریک منظم کرنے اور اللہ کی مدد سے اسے کامیابی تک پہنچانے والے انسانیت کے قائد محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس تحریک کی کامیابی‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثل قیادت کے فہم و شعور اور تجزیہ کو نظریاتی حدود اور زمینی حقائق سے الگ نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اللہ کی زمین پر آباد انسانوں اور مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی رہنمائی اور فلاح کےلئے قرآن کریم کے بعد اسوہ¿ الامین صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اہم ضروری اور بنیادی کتاب ہدایت ہے۔
عرب شاعر و شعر شناس تھے صحرائی زندگی کی جذباتیت کو شعر میں بیان کرنے کی روایت وہاں بہت پرانی تھی شعر کی جذباتیت ان کے دلوں پر بہت زیادہ اثر کرتی تھی نثر میں دلیل کے ساتھ بات کرنے اور دل و دماغ پر اثر انداز ہونے کی روایت موجود تو تھی مگر کمزور تھی اس کے باوجود جو بھی کوئی قرآن کریم سنتا تھا اس کے دل و دماغ بے قابو ہو جاتے تھے۔ قرآن کریم کے بیان میں شعری لذت اور لطافت بھی ہے اور دلیل سے حق کو ثابت کرنے اور باطل کو رد کرنے کی نثری قوت بھی اس کا اثر سننے والے کے دل و دماغ میں پیوست ہو جاتا تھا (اور ہو جاتا ہے) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارک کے چالیس سال اہل مکہ کے درمیان گزارے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے توحید کے مشن کے آغاز تک کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک لمحہ سے وہ سب واقف تھے مگر توحید کے کسی بڑے سے بڑے دشمن نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کے سارے دور میں کبھی نہیں کہا تھا کہ
(1) جن بتوں اور جھوٹے معبودوں کی عبادت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع کرتے ہیں کل تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی عبادت کیا کرتے تھے۔
(2) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جھوٹ بولا تھا۔
(3) کسی کو دھوکہ دیا تھا۔
(4) کسی کا حق مارا تھا۔
لہٰذا جو بھی کوئی خلوص نیت سے قرآن سنتا تھا وہ دل و دماغ سے مان لیتا تھا کہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ ان کے دل و دماغ تو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور سچائی کے گواہ ہوتے تھے۔ حضرت یاسرؓ ابھی اسلام نہیں لائے تھے ایک روز انہوں نے اپنے بیٹے عمارؓ سے پوچھا ”کہاں جا رہے ہو؟“
نوجوان عمارؓ نے جواب دیا ”میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا رہا ہوں“۔
حضرت یاسرؓ نے کہا ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں تو وہ سچ کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مکہ کا کوئی ایک بھی فرد نہیں کہہ سکتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کبھی جھوٹ بولا ہے“۔
رومی شہنشاہ ہرقل نے اللہ کے دین کے دشمنوں کے سردار ابوسفیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تھا ”نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے تم نے کبھی انہیں جھوٹ بولتے پایا ہے؟“
ابوسفیان کا جواب تھا ”جی نہیں“
ہرقل نے پوچھا ”وہ عہد شکنی کرتا ہے؟“
ابوسفیان کا جواب تھا ”جی نہیں“۔
اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھنے والے عبادت گزار افراد تیار کرنے کا ہی تو مشن نہیں سونپا تھا توحید ایک عقیدہ بھی ہے ایک طرز فکر و عمل بھی اور ایک طرز زندگی بھی جب توحید پر ایمان رکھنے والوں کے افکار و اعمال توحید کے تابع ہو جائیں تب ہی توحیدی معاشرہ وجود میں آتا ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو جانے کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی جماعت ایسا توحیدی معاشرہ اور ریاست کیسے قائم کئے تھے اس وسیع تر ہمہ جہتی تربیتی پروگرام کو جانے بغیر توحید کی فتح کامل کا شعور ممکن ہے نہ توحید کی روح سے آشنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم اور اپنے ذاتی کردار سے سب دشمنوں کو اللہ کی مدد سے کیسے شکست فاش دی تھی یہ رہنمائی الامین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک میں ہے کہ توحید اور اسلام ایک عقیدہ ہے طرز فکر و عمل ہے کوئی پیشہ یا کاروبار نہیں اس کا مقصد صرف عبادت گزار تیار کرنا نہیں اچھے انسان تیار کرنا ہے ایسے انسان جن کے دلوں میں ہر لمحہ اللہ کا خوف زندہ رہے معاشروں کے فروغ اور ریاستوں کے قیام و دوام کےلئے حکمرانی سے دستکاری مزدوری اور دکانداری جیسے سب ہی شعبہ ہائے زندگی کا ہونا اہم حصہ ہوتا ہے۔ عبادت ایک تربیتی پروگرام اور ایسے خوف کو دلوں میں زندہ رکھنے کا طریقہ ہے اور معاشرے مختلف پیشوں سے وابستہ افراد سے مل کر بنتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید‘ معاشرے کے قیام کو اہمیت دی تھی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک توحید اور شرک کے درمیان عظیم جنگ کی تفصیل ہے۔ 610ءکے موسم گرما کی ایک رات کے پچھلے پہر اللہ تعالیٰ نے محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اپنی زمین پر اور اپنے بندوں کے دلوں پر اپنی حاکمیت کے قیام کا مشن سونپا تھا اس وقت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی توحید کا پرچم اٹھا کر شرک کے مقابلے کے لئے میدان جہاد میں نکلے تھے۔ اس جنگ میں ایک طرف اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور دوسری طرف عرب کے اور ساری دنیا کے مشرک تھے ان کے بادشاہ‘ شہنشاہ اور سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج البلاغ کے قافلہ میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب اہل توحید شامل تھے۔ جزیرہ نمائے عرب کے سب شہروں‘ بستیوں‘ صحراﺅں اور ریگستان سے آئے ان لوگوں کے دلوں پر اور زمینوں پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو چکی تھی۔ اللہ نے اکیلے شرک کے ان علاقوں سے سب لشکروں کو شکست فاش دیدی تھی۔ شرک کے سارے سپاہیوں جرنیلوں اور محافظوں کے دل و دماغ توحید نے فتح کر لئے ہوئے تھے۔
اس جنگ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو ہی ہتھیار تھے ایک اللہ کی کتاب قرآن اور دوسرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی کردار۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ”جو بھی کوئی اللہ کی کتاب اور میری سنت کی پیروی کرے گا وہ کبھی راہ راست سے نہیں بھٹکے گا“ لہٰذا جو بھی کوئی راہ راست پر قائم رہنا چاہتا ہے اس کے لئے قرآن کریم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک میں مکمل رہنمائی ہے۔ شرک کے خلاف اس جنگ عظیم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ کردار سے جو بھی کوئی روشنی حاصل کرنا چاہے اس کے لئے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کی حاکمیت کے قیام کے مختلف مراحل ہیں اور ان مراحل کی مشکلات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی سے آگاہی لازم ہے۔
ہر تحریک کی بنیاد ایک نظریہ پہ ہوتی ہے جس بھی کسی تحریک کا تعلق اللہ کی زمین پر بسنے والے انسانوں سے ہو اس کا ایک قائد ہوتا ہے جو اس نظریہ کی بنیاد پر تحریک منظم کرتا اور چلاتا ہے نظریہ توحید کی تحریک منظم کرنے اور اللہ کی مدد سے اسے کامیابی تک پہنچانے والے انسانیت کے قائد محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس تحریک کی کامیابی‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثل قیادت کے فہم و شعور اور تجزیہ کو نظریاتی حدود اور زمینی حقائق سے الگ نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اللہ کی زمین پر آباد انسانوں اور مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی رہنمائی اور فلاح کےلئے قرآن کریم کے بعد اسوہ¿ الامین صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اہم ضروری اور بنیادی کتاب ہدایت ہے۔
عرب شاعر و شعر شناس تھے صحرائی زندگی کی جذباتیت کو شعر میں بیان کرنے کی روایت وہاں بہت پرانی تھی شعر کی جذباتیت ان کے دلوں پر بہت زیادہ اثر کرتی تھی نثر میں دلیل کے ساتھ بات کرنے اور دل و دماغ پر اثر انداز ہونے کی روایت موجود تو تھی مگر کمزور تھی اس کے باوجود جو بھی کوئی قرآن کریم سنتا تھا اس کے دل و دماغ بے قابو ہو جاتے تھے۔ قرآن کریم کے بیان میں شعری لذت اور لطافت بھی ہے اور دلیل سے حق کو ثابت کرنے اور باطل کو رد کرنے کی نثری قوت بھی اس کا اثر سننے والے کے دل و دماغ میں پیوست ہو جاتا تھا (اور ہو جاتا ہے) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارک کے چالیس سال اہل مکہ کے درمیان گزارے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے توحید کے مشن کے آغاز تک کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک لمحہ سے وہ سب واقف تھے مگر توحید کے کسی بڑے سے بڑے دشمن نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کے سارے دور میں کبھی نہیں کہا تھا کہ
(1) جن بتوں اور جھوٹے معبودوں کی عبادت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع کرتے ہیں کل تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی عبادت کیا کرتے تھے۔
(2) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جھوٹ بولا تھا۔
(3) کسی کو دھوکہ دیا تھا۔
(4) کسی کا حق مارا تھا۔
لہٰذا جو بھی کوئی خلوص نیت سے قرآن سنتا تھا وہ دل و دماغ سے مان لیتا تھا کہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ ان کے دل و دماغ تو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور سچائی کے گواہ ہوتے تھے۔ حضرت یاسرؓ ابھی اسلام نہیں لائے تھے ایک روز انہوں نے اپنے بیٹے عمارؓ سے پوچھا ”کہاں جا رہے ہو؟“
نوجوان عمارؓ نے جواب دیا ”میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا رہا ہوں“۔
حضرت یاسرؓ نے کہا ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں تو وہ سچ کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مکہ کا کوئی ایک بھی فرد نہیں کہہ سکتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کبھی جھوٹ بولا ہے“۔
رومی شہنشاہ ہرقل نے اللہ کے دین کے دشمنوں کے سردار ابوسفیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تھا ”نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے تم نے کبھی انہیں جھوٹ بولتے پایا ہے؟“
ابوسفیان کا جواب تھا ”جی نہیں“
ہرقل نے پوچھا ”وہ عہد شکنی کرتا ہے؟“
ابوسفیان کا جواب تھا ”جی نہیں“۔
اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھنے والے عبادت گزار افراد تیار کرنے کا ہی تو مشن نہیں سونپا تھا توحید ایک عقیدہ بھی ہے ایک طرز فکر و عمل بھی اور ایک طرز زندگی بھی جب توحید پر ایمان رکھنے والوں کے افکار و اعمال توحید کے تابع ہو جائیں تب ہی توحیدی معاشرہ وجود میں آتا ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو جانے کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی جماعت ایسا توحیدی معاشرہ اور ریاست کیسے قائم کئے تھے اس وسیع تر ہمہ جہتی تربیتی پروگرام کو جانے بغیر توحید کی فتح کامل کا شعور ممکن ہے نہ توحید کی روح سے آشنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم اور اپنے ذاتی کردار سے سب دشمنوں کو اللہ کی مدد سے کیسے شکست فاش دی تھی یہ رہنمائی الامین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک میں ہے کہ توحید اور اسلام ایک عقیدہ ہے طرز فکر و عمل ہے کوئی پیشہ یا کاروبار نہیں اس کا مقصد صرف عبادت گزار تیار کرنا نہیں اچھے انسان تیار کرنا ہے ایسے انسان جن کے دلوں میں ہر لمحہ اللہ کا خوف زندہ رہے معاشروں کے فروغ اور ریاستوں کے قیام و دوام کےلئے حکمرانی سے دستکاری مزدوری اور دکانداری جیسے سب ہی شعبہ ہائے زندگی کا ہونا اہم حصہ ہوتا ہے۔ عبادت ایک تربیتی پروگرام اور ایسے خوف کو دلوں میں زندہ رکھنے کا طریقہ ہے اور معاشرے مختلف پیشوں سے وابستہ افراد سے مل کر بنتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید‘ معاشرے کے قیام کو اہمیت دی تھی۔