تعبیر

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

3 posters

    اس دنیا سے جانے والوں مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات

    کامران خان
    کامران خان


    Posts : 323
    Join date : 17.02.2010
    Location : Abu Dhabi

    اس دنیا سے جانے والوں مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات Empty اس دنیا سے جانے والوں مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات

    Post by کامران خان Thu Feb 25, 2010 12:53 pm

    آخری ہچکی سے ذرا پہلے، سانس کی ڈور ٹوٹنے سے کچھ دیر قبل، میدان جنگ میں موت کو سامنے دیکھ کر یا اپنی زندی خود اپنے ہاتھوں ختم کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ”سوسائیڈ نوٹ“ کی صورت میں اس دنیا سے جانے والوں مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات اپنے اندر کئی معنی خیز پیغامات سموئے ہوئے ہیں۔ ان آخری کلمات میں کہیں حکمت اور دانائی پنہاں ہے تو کسی کے حرف حرف سے بے بسی عیاں ہے۔ درد یا خواہش کا اظہار موت کا خوف اپنی زندگی کا کام یابی کا احساس اور کہیں خالق سے ملاقات کا شوق، استقلال، ندامت، رشک اور سفاکی کے الگ الگ لہجوں میں ادا کیے گئے یہ آخری الفاظ زندگی کے مختلف روپ دکھاتے ہیں۔ موت اور زندگی کی سرحد پر کہے جانے والے کچھ مشہور شخصیات اور کچھ غیر معروف لوگوں کے مشہور ہونے والے آخری کلمات قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کیے جا رہے ہیں۔



    معروف شخصیات کے آخری کلمات:


    ٭ بابائے ترکی مصطفی کمال اتاترک نے کومے میں جانے سے قبل پوچھا ”کیا وقت ہوا ہے؟“


    ٭سکندر اعظم کے کفن سے باہر نکلے خالی ہاتھ ایک معروف استعارہ بن چکے ہیں لیکن اس کے کہے گئے آخری الفاظ بھی بادشاہوں اور سلطنت کے حصول اور ان کے قیام کا بنیادی کلیہ بیان کرتے ہیں۔ بستر مرگ پر جب سکندر سے پوچھا گیا کہ اس کے بعد کس کو بادشاہ بنایا جائے تو اس نے کہا ”سب سے طاقت ور کو“ اور یہ ہی اس کے آخری کلماتے تھے۔


    ٭ ”نکل جاﺅ یہاں سے، آخری کلمات وہ احمق کہتے ہیں جو زندگی بھر اپنی بات پوری نہ کر سکے ہوں۔ “ کمیونزم کی سائنسی انداز میں صورت گری کرنے والے کارل مارکس نے اپنے گھریلو ملازم کے سوال کے جواب میں یہ جملے کہے۔


    ٭ برطانیہ کی پہلی رکن پارلیمانی لیڈی نینسی آسٹر نے جب اپنے بستر کے گرد اپنے عزیز و اقارب کا ہجوم دیکھا تو کہا، ”کیا میں مرنے والی ہوں یا آج میری سال گرہ ہے؟“۔


    ٭ ٹیلی فون کے مو ¿جد الیگزینڈر گراہم بیل کی بہری بیوی نے آخری وقت میں اس کے کان میں کہا، ”کیا تم مجھے چھوڑ کر جا رہے ہو؟“ تو گراہم بیل چلایا ”نہیں!!“ اور دم توڑ گیا۔


    ٭فرانس کے فرماں رواں نیولین بونا پارٹ کے آخری کلمات تھے ”فرانس، فوج جوزفین۔“


    ٭ برطانیہ کے سابق وزیراعظم اور معروف سیاستدان سرونسٹن چرچل نو دن کومے کی حالت میں رہنے کے بعد آں جہانی ہوئے اور اس طویل کومے میں جانے سے پہلے انہوں نے کہا تھا میں اس سب سے بہت اکتا گیا ہوں۔


    ٭ شاعر مشرق علامہ اقبال کا انتقال طویل علالت کے بعد ہوا۔ ان کے آخری وقت کے متعلق تذکرہ نگاروں نے اقبال کے دیرینہ خادم علی بخش کے بیان کو نقل کیا ہے جس کے مطابق علی الصبح اقبال کے سینے میں درد اٹھا علی بخش نے اقبال کو سہارا دیا، ”اللہ! میرے یہاں درد ہو رہا....“ کہتے ہوئے اقبال کا سر پیچھے کو ڈھلک گیا اور مشرق بلند ستارہ وقت سحر غروب ہو گیا۔


    ٭ نظریہ ارتقا سے شہرت پانے والے چارلس ڈارون آخری دم کہہ رہے تھے ”میں موت سے ڈرنے والا دنیا کا آخری شخص نہیں۔“ ٭ جب رومیوں نے یوانانی سلطنت کے شہر سائزس پر قبضہ کر لیا تو فوج کو خاص طور پر حکم دیا گیا کہ معروف یونانی ماہر ریاضیات، طبیعات داں اور موجدار شمیدس کو زندہ گرفتار کیا جائے۔ جو فوجی ارشمیدس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گے، انہوں نے دیکھا کہ ارشمیدس زمین پر کچھ دائرے بنا رہا ہے۔ فوجیوں نے ارشمیدس کو اپنے ساتھ جانے پر مجبور کیا اور زبردستی شروع کر دی جس کے جواب میں ارشمیدس نے کہنا شروع کر دیا میرا دائرہ خراب مت کرو! اس پر ایک رومی فوجی نے طیش میں آکے اسے قتل کر دیا۔


    ٭ گوتم بدھ کے آخری کلمات تھے، ”بھکشوﺅ! یاد رکھنا تمام مرکب مادی اشیاءفنا ہو جائینگی، مستعدی اور محنت سے جدوجہد کرنا۔“ ٭ جیک ڈینیل امریکا کے معروف شراب ساز کار خانے جیک ڈینیلز ٹینسی وہسکی ڈسٹیلیری کا بانی تھا اور اس کے آخری الفاظ تھے ”ایک اور جام.... پلیز!“


    ٭ چارلزڈ کنز ممتاز برطانوی ادیب تھے۔ فطرت سے محبت اور اس کی منظر کسی ان کے کلام بنیادی موضوع رہا۔ یہ بات مشہور ہے کہ جب برطانیہ میں ریل کی پٹڑی بچھانے کے کام کا آغاز ہوا تو ڈ کنزنے زمین پر آہنی پٹریاں بچانے کو پند نہ کیا، جو ان کی زمین سے محبت کی ایک مثال بن گئی۔ اتفاق دیکھئے۔ جب چارلس ڈکنز اپنے گھر کے قریب چہل قدمی کر رہے تھے اور انہیں دل کا دورہ پڑا۔ انہوں نے سہارا دینے والے افراد سے کہا، ”زمین پر زمین پر“ یعنی زمین پر لٹا دو اور یہ کہتے کہتے ہی وہ عظیم شاعر دنیا سے رخصت ہو گیا۔


    ٭ تھامس ایڈیسن کا شمار سائنس دانوں میں ہوتا ہے جن کی ایجادات نے اکیسویں صدی میں انسانی زندگی پر بے پناہ اثرات مرتب کیے۔ یہ معروف مو ¿جد جب بستر مرگ پر تھا تو اس کے سامنے کھڑکی کھلی ہوئی تھی وہ یہ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوا وہاں کتنی خوب صورتی ہے ان کلمات کے مفہوم یہ بہ بحث کی جاتی ہے کہ آیا ایڈیسن کھڑکی سے نظر آنے والے منظر کی خوب صورتی کی طرف اشارہ کر رہا تھا یا موت کے بعد آنے والی زندگی کی طرف۔


    ٭ بنجمن فرینکلن کا شمار یراست ہائے متحدہ کے بانیوں میں ہوتا ہے ایک مو ¿جد، ماہر طبیعات، سیاستدان، سفارت کار اور صحافی سمیت کئی حوالوں سے فرینکلن کا نام جانا جاتا ہے۔ اپنے آخری وقت میں اس نے ایک درد ناک حقیقت بیان کی۔ جب اس کی بیٹی نے اسے کروٹ بدلنے کو کہا تاکہ اسے سانس لینے میں جو دشواری پیش آرہی ہے وہ دور ہو جائے تو فرینکلن نے یہ کلمات ادا کیے مرتا ہوا انسان کوئی بھی کام آسانی سے نہیں کر سکتا۔“


    ٭ معروف ماہر نفسیات اور تجزیاتی نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ نے زندگی کے آخری لمحوں میں یہ کہا واہیات ہے یہ کیا واہیات ہے کہ الفاظ کہے ان الفاظ سے شاید اس کا اشارہ موت کی تکلیف کی طرف تھا۔ بعض تذکرہ نگاروں نے فرائیڈ کے آخری کلمات یہ بتائے ہیں انسان حقائق جان کر بھی پورا اطمینان حاصل نہیں کر پاتا اور یہ ہی بات اسے زندگی بھر جدوجہد کرنے پر مجبور رکھتی ہے۔“


    ٭ بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی اپنے قتل سے تھوڑی ہی دیر پہلے اپنے سکیوریٹی اہل کاروں سے کہہ رہے تھے پریشان مت ہو، ریلیکس.... اور کچھ ہی دیر بعد وہ خودکش حملے میں مارے گئے۔


    ٭ فن اداکاری میں سچویشن کامیڈی اور سلیپ کامیڈی کے بانی لیجنڈ اداکار چارلی چیپلن کے بستر مرگ کے قریب موجود ایک پاوری نے کہا ”خدا تمہاری روح پر رحم فرمائے۔ جواباً چارلی چیپلن نے کہا۔ ”کیو نہیں؟ یہ اس کا کام ہے۔“ ٭ معروف ہسپانوی مصور پکاسو کے آخری کلمات تھے، پلاﺅ....


    ٭ معروف ڈرامانگار جارج برناڈشا بستر مرگ پر یہ آخری لکمات ادا کیے ”مرنا آسان ہے مگر مزاح لکھنا مشکل۔“


    ٭ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کے آخری الفاظ تھے، ”ٹھیک ہے کہ میری موت تکلیف دہ ہے لیکن مجھے جانے کا غم نہیں“۔ ٭ عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماﺅزے تنگ نے مرتے دم کہا میں خودکو بیمار محسوس کر رہا ہوں ، ڈاکٹر کو بلاﺅ....


    ٭ معروف سیاح مار کو پولو کے سفر زندگی کا اختتام یہ کلمات کہتے ہوئے ہوا میں نے جو کچھ دیکھا اس کا نصف بھی بیان نہیں کیا۔


    ٭ فرانس کے معروف خریت پسند ادیب والٹئیر کے قریب کھڑا پادری اسے شیطان پر لعنت بھیجنے کی ترغیب دے رہا تھا اس نے پادری کو دم نکلتے نکلتے جواب دیا ”اے نیک آدمی! یہ وقت نئے دشمن بنانے کا نہیں“ ٭ 1972 سے 1975ءتک شطرنج کا عالمی چمپئن رہنے والے بوبی فشر کے آخری کلمات تھے،”کوئی بھی شے درد کو کم کرنے میں انسانی لمس سے زیادہ کارگر نہیں۔“


    ٭معروف روسی ناول نگار لیون ٹالسٹائی کے آخری کلمات تھے لیکن کسانو! ایک کسان کیسے مرتا ہے؟“ ٭کہا جاتا ہے کہ پرنسز آف ویلز لیڈی ڈیانا گاڑی کے حادثے کے بعد زخمی حالت میں یہ کہتے ہوئے موت کی آغوش میں چلی گئی، ”میرے خدا! یہ کیا ہو گیا؟“


    ٭ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کے لبوں پر دم آخرت یہ الفاظ تھے، ”اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔“


    ٭مغربی فلسفے کے بادا آرم قدیم یونانی فلسفی سقراط نے زہر کا پیالہ پینے سے قبل اپنے شاگردوں سے یہ آخری کلمات کہے، ”کریٹو! ہمیں ایسکلی پئیس کی نذر ایک مرغا کرنا چاہیے، دیکھو! یہ بھول نہ جانا ” ایسکلی پئیس علاج اور نجات کے یونانی دیوتا کا نام تھا۔ ان کلمات سے لگتا ہے کہ سقراط روح کے جسم میں قید ہونے کو زندگی سمجھتا تھا اور موت کو روح کی نجات اور آزادی سے تعبیر کرتا تھا جب ہی اس نے اپنی موت پر شکر بجالانے کیلئے نجات کے دیونا کو نذر چڑھانے کی وصیت کی۔


    ٭ فلسفے اور تفکر کی بات کی جائے تو چندا یسے نام ہے جو ذہن کوند جاتے ہیں۔ ان ناموں میں سے ایک ارسطو کا نام بھی شامل ہے۔ ارسطو کے آخری کلمات اس کے مشاہدے اورط طرز فکر کو عیاں کرتے ہیں اس نے دم آخر کہا ”قدرت نے کوئی چیز بے کار نہیں بنائی۔“


    ٭ نابغہ روزگار سائنس داں آئزک نیوٹن نے اس کائنات پر غور و خوض ذریعے جو کارنامے انجام دیے وہ ناقابل فراموش ہیں، لیکن وہ آخری لمحات میں اپنی ساری جدوجہد کو ان لفظوں میں بیان کرتا ہے مجھے نہیں معلوم کہ دنیا کے بارے میں مجھ پر کیا کچھ ظاہر ہوا لیکن میں نے تو سمندر کے کنارے کھیلنے والے اس لڑکے کی طرح اس دنیا کو دیکھا جس کے سامنے حقیقت اورسچائی کا سمندر تھا اور وہ ساحل پرسیپیاں اور خوش نما پتھر تلاش کرتا رہا۔


    ہم بیگناہ ہیں


    امریکا کا کمیونسٹ جوڑا، جولیس روزنبرگ اور ایتھل روزنبرگ، جسے 1953ءمیں سویت یونین کیلئے جاسوسی کرنے اور ایٹمی راز منتقل کرنے کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔ یہ امریکی تاریخ میں کسی سویلین کو جاسوسی کے الزامم یں دی جانیوالی پہلی سزائے موت تھی ان دنوں میاں بیوی کے آخری بیانات ان کی موت کی طرح تاریخی تھے: ایتھل روزنبرگ نے کہا ”ہم امریکی فسطائیت کا پہلا شکار ہیں۔“ جولیس روزنبرگ نے کہا ہم بے گناہ اور یہ پورا سچ ہے زندگی کے انمول تحفے کی قیمت اس سچ سے پھر جانا ہے اس طرح ہم زندگی تو خرید لیں گے لیکن اسے با عزت انداز سے گزار نہیں پائیں گے۔


    دھرتی کے گناہ


    ٭ امریکا میں غلامی کے خاتمے کیلئے بغاوت کرنے والے پہلے سفید فارم راہنما جان براﺅن کو 1859ءمیں پھانسی دے دی گئی۔ اپنی پھانسی سے قبل اس نے ایک تاریخی نوٹ لکھا تھا۔ میں جان براﺅن پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اس دھرتی امریکا کے گناہ اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں خون سے ہی دھویا جا سکتا ہے میں پہلے بھی یہ سوچتا تھا، لیکن اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی کے بعد وثوق سے کہہ سکتا ہوں، کہ شاید ہی یہ سب کچھ کسی بڑی خون ریزی کے بغیر ممکن ہو سکے۔“


    ٭ ایک وقت آئے گا جب ہماری خاموشی اس آواز سے زیادہ طاقت ور ہو گی جسے تم آج دہانے کی کوشش کر رہے ہو۔ ”اگسٹ اسپائس، اٹارکسٹ مزدور راہنما اور مشہور زمانہ، ہے مارکیٹ کے واقعے کا ملزم۔


    جہنم میں ڈنر


    مجرموں اور قاتلوں میں سے کچھ کے آخری کلمات جو انہوں نے اپنے جرائم کی سزا حاصل کرتے ہوئے کہے: ٭ ”میں جہنم میں رات کے کھانے پر بروقت پہنچنا پسند کروں گا۔ “ ایڈورڈ ایچ رلوف امریکی سپریل کلر


    ٭ ”مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں زندہ رہوں یا مر جاﺅں۔ جلدی کرو، مجھے مارا دو! “ امریکی سفاک قاتل اور جنسی جرائم کا مرتکب جیفری ڈہیمر


    ٭ کارل پنزرم امریکا کا ایک معروف سیریل کلر تھا۔ پھانسی پانے سے کچھ دیر پہلے وہ چلا رہا تھا جلدی کرواتم جتنی دیر سے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہو اتنی دیر میں میں دس آدمی قتل کر دیتا ہوں۔


    ٭ جیمس ڈبلیو راجرز نامی قاتل سے جب فائرنگ اسکواڈ کے سامنے لے جانے سے قبل آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا ”ہا، مجھے پہننے کیلئے ایک بلٹ پروف جیکٹ لادو۔“


    ٭ امریکی صدر کے قتل کی سازش میں ملوث اور امریکا میں سزائے موت پانے والی پہلی خاتون مئیری سرٹ کو جب پھانی دی جا رہی تھی تو اس نے جلاد سے کہا، ”خدار! مجھے کرنے نہ دینا۔“


    اوخدا وندا


    ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں میں یوں تو ہزماروں افراد لقمہ اجل بنے لیکن ان میں سے ایک ”کیون کو سگروو“ کی آخری فون کال ریکارڈ بھی ہوئی اور بعد میں اس ریکارڈنگ کو نائن الیون کے واحد سزا یافتہ مجرم ذکریا موسوی کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی میں بھی پیش کیا گیا۔ کیون کو سگرو ایک انشورنس کمپنی کا ملازم تھا اور اس کا دفتر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور میں واقع تھا۔ اس نے جب شمالی ٹاور سے جہاز ٹکراتے ہوئے دیکھا تو فوراً اپنی بیوی کو فون کر کے اپنی خیریت سے آگاہ کیا اور اس کے بعد پولیس کو فون کرنے لگا کہ اتنے میں جنوبی ٹاور سے بھی جہاز ٹکرا گیا۔ اس کے آخری الفاظ ریکارڈ ہوئے اور یہ ہی الفاظ کئی اخبارات کی سرخیاں بھی بنے۔ دو کھڑکیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ اوہ گاڈاو
    أضواء
    أضواء
    Administrater
    Administrater


    Posts : 762
    Join date : 14.01.2010
    Location : دمــام (سعوديــه )

    اس دنیا سے جانے والوں مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات Empty Re: اس دنیا سے جانے والوں مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات

    Post by أضواء Thu Feb 25, 2010 1:56 pm

    ٭ فلسفے اور تفکر کی بات کی جائے تو چندا یسے نام ہے جو ذہن کوند جاتے ہیں۔ ان ناموں میں سے ایک ارسطو کا نام بھی شامل ہے۔ ارسطو کے آخری کلمات اس کے مشاہدے اورط طرز فکر کو عیاں کرتے ہیں اس نے دم آخر کہا ”قدرت نے کوئی چیز بے کار نہیں بنائی۔“


    زبردست
    کامران خان
    کامران خان


    Posts : 323
    Join date : 17.02.2010
    Location : Abu Dhabi

    اس دنیا سے جانے والوں مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات Empty Re: اس دنیا سے جانے والوں مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات

    Post by کامران خان Thu Feb 25, 2010 2:01 pm

    شکریہ
    مغل شہزادہ
    مغل شہزادہ
    Administrater
    Administrater


    Posts : 212
    Join date : 13.01.2010
    Age : 39
    Location : بیچ منجدھار

    اس دنیا سے جانے والوں مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات Empty Re: اس دنیا سے جانے والوں مشہور لوگوں کے کہے ہوئے یا تحریر کردہ آخری کلمات

    Post by مغل شہزادہ Thu Feb 25, 2010 2:11 pm

    زبردست thanks

      Current date/time is Mon Nov 25, 2024 8:43 pm