اعتبار ساجد
لپ پہ نہ لائے دل کی کوئی بات اسے سمجھا دینا
میں تو مرد ہوں اور وہ عورت ذات اسے سمجھا دینا
سکھیاں باتوں باتوں میں احوال یقینا پوچھیں گی
کرے نہ کوئی ایسی ویسی بات اسے سمجھا دینا
چلتے پھرتے باتیں کرتے ، بے حد وہ محتاط رہے
چھوٹے شہر بھی ہوتے ہیں دیہات اسے سمجھا دینا
گھر سے باہر جانے ، پھر گھر تک واپس آنے میں
گلے بھی پڑ جاتے ہیں کچھ صدمات اسے سمجھا دینا
بعض اوقات بدل جاتے ہیں منظر پلک جھپکنے میں
کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں حالات اسے سمجھا دینا
لکھ دینے سے پھول ، کبھی کاغذ سے خوشبو آتی ہے؟
سونا تو نہیں بن سکتی ہر دھات اسے سمجھا دینا