پیر کے روز کابل پر طالبان کے حملے نے نہ صرف سردیوں کی ایک خاموش شام کو گولیوں اورگرینیڈوں کی گونجوں سے چونکا دیا بلکہ اٹھائیس جنوری کو لندن میں افغانستان کانفرنس میں شریک ممالک کو بھی کچھ پیغامات بھیجے ہیں۔
کابل پر حملہ دلیرانہ اور دل ہلا دینے والا تھا۔ کابل کئی گھنٹوں تک گولیوں اور دھماکوں سےگونجتا رہا اور دھوئیں کے کالے بادل چھائے رہے۔
ان حملوں نے کابل کے رہائشیوں کو پیغام دیا کہ حملہ آور نزدیک ہیں اور کسی وقت بھی کابل کی کسی عمارت کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ وہ کابل کے مرکز میں کارروائی کر سکتے ہیں بلکہ سخت حفاظتی حصار والے صدراتی محل کے قریب تر پہنچ سکتے ہیں۔
کابل پر بیس شدت پسندوں کے حملے نے یہ بھی باور کروایا ہے کہ ایسے حملہ آور جو مرنے پر کمربستہ ہوں ان کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اس حملے نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز حملہ آوروں سے لڑ کر ان کر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز نے کئی گھنٹوں تک حملہ آوروں سے جنگ کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ کوئی حملہ آور بھی بچ نکلنے میں کامیاب نہیں ہوا اور تمام کے تمام کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
اس حملے میں تین افغان فوجی اور دو شہری ہلاک ہوئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد پچھہتر بتائی جا رہی ہے۔
افغانستان کی خاتون رکنِ پارلیمان شکریا بارکزئی کےمطابق حملہ آوروں نےافغانستان کے بارے عالمی کانفرنس میں شریک لوگوں کو پیغام بھیجا ہے کہ افغان حکومت افغانستان کا کنٹرول حاصل کر رہی ہے اور سکیورٹی کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
صرف ایک روز پہلے ہی برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز نے کابل کا انتظام سنبھال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں پورے ملک کی سکیورٹی کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تیاری کر رہی ہے۔
کابل میں ایک مغربی سفارت کے مطابق شدت پسندوں کا کابل پر حملہ ’ناکام‘ رہا ہے کیونکہ حملہ آور نہ تو کابل کی کسی اہم عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے اور نہ سرینا ہوٹل تک پہنچ پائے۔
ایک مغربی انٹیلیجنس تجزیے کے مطابق شدت پسند سال میں صرف ایک بار ایسا حملہ کرتے ہیں جس سے وہ اپنی انتہائی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دو ہزار آٹھ میں طالبان نے سرینا ہوٹل پر حملہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ کابل میں محفوظ ترین سمجھی جانے والی عمارت بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حملہ آوروں نے اقوام متحدہ کے گیسٹ ہاؤس کو نشانہ بنا کر یہ باور کروایا کہ کابل کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں ہے۔
لندن کانفرنس کا مقصد افغانستان اور اس کے اتحادیوں کو یہ باور کروانا ہے کہ نیٹو کی حمایت یافتہ حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کر رہی ہے اور چھوٹے درجے کے طالبان کو اپنے ساتھ ملا کر حالات کو کنٹرول کرنے میں کیا جا سکتا ہے لیکن طالبان نے پیر کے روز یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس رائے سے متفق نہیں ہیں کہ نیٹو کی حمایت یافتہ حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہو رہی ہے۔
کابل پر حملہ دلیرانہ اور دل ہلا دینے والا تھا۔ کابل کئی گھنٹوں تک گولیوں اور دھماکوں سےگونجتا رہا اور دھوئیں کے کالے بادل چھائے رہے۔
ان حملوں نے کابل کے رہائشیوں کو پیغام دیا کہ حملہ آور نزدیک ہیں اور کسی وقت بھی کابل کی کسی عمارت کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ وہ کابل کے مرکز میں کارروائی کر سکتے ہیں بلکہ سخت حفاظتی حصار والے صدراتی محل کے قریب تر پہنچ سکتے ہیں۔
کابل پر بیس شدت پسندوں کے حملے نے یہ بھی باور کروایا ہے کہ ایسے حملہ آور جو مرنے پر کمربستہ ہوں ان کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اس حملے نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز حملہ آوروں سے لڑ کر ان کر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز نے کئی گھنٹوں تک حملہ آوروں سے جنگ کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ کوئی حملہ آور بھی بچ نکلنے میں کامیاب نہیں ہوا اور تمام کے تمام کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
اس حملے میں تین افغان فوجی اور دو شہری ہلاک ہوئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد پچھہتر بتائی جا رہی ہے۔
افغانستان کی خاتون رکنِ پارلیمان شکریا بارکزئی کےمطابق حملہ آوروں نےافغانستان کے بارے عالمی کانفرنس میں شریک لوگوں کو پیغام بھیجا ہے کہ افغان حکومت افغانستان کا کنٹرول حاصل کر رہی ہے اور سکیورٹی کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
صرف ایک روز پہلے ہی برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز نے کابل کا انتظام سنبھال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں پورے ملک کی سکیورٹی کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تیاری کر رہی ہے۔
کابل میں ایک مغربی سفارت کے مطابق شدت پسندوں کا کابل پر حملہ ’ناکام‘ رہا ہے کیونکہ حملہ آور نہ تو کابل کی کسی اہم عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے اور نہ سرینا ہوٹل تک پہنچ پائے۔
ایک مغربی انٹیلیجنس تجزیے کے مطابق شدت پسند سال میں صرف ایک بار ایسا حملہ کرتے ہیں جس سے وہ اپنی انتہائی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دو ہزار آٹھ میں طالبان نے سرینا ہوٹل پر حملہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ کابل میں محفوظ ترین سمجھی جانے والی عمارت بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حملہ آوروں نے اقوام متحدہ کے گیسٹ ہاؤس کو نشانہ بنا کر یہ باور کروایا کہ کابل کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں ہے۔
لندن کانفرنس کا مقصد افغانستان اور اس کے اتحادیوں کو یہ باور کروانا ہے کہ نیٹو کی حمایت یافتہ حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کر رہی ہے اور چھوٹے درجے کے طالبان کو اپنے ساتھ ملا کر حالات کو کنٹرول کرنے میں کیا جا سکتا ہے لیکن طالبان نے پیر کے روز یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس رائے سے متفق نہیں ہیں کہ نیٹو کی حمایت یافتہ حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہو رہی ہے۔