تعبیر

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

2 posters

    بيٹياں والدين پر بوجھ کيوں؟

    کامران خان
    کامران خان


    Posts : 323
    Join date : 17.02.2010
    Location : Abu Dhabi

    بيٹياں والدين پر بوجھ کيوں؟ Empty بيٹياں والدين پر بوجھ کيوں؟

    Post by کامران خان Sat Mar 13, 2010 9:10 pm

    بيٹياں والدين پر بوجھ کيوں؟


    بيٹي کي اہميت، اس کي محبت، تعليم و تربيت اور شادي پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ ہم اس دور کا ذکر کريں جب معاشروں ميں بيٹي کے بارے ميں نہايت غلط، بے منطق، فرسودہ اور عجيب و غريب تصورات موجود تھے بلکہ يہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ دور ميں بھي جب انسان ترقي کي نت نئي منزليں طے کرتا جارہا ہے اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مقامي اور عالمي سطح پر بے شمار انجمنيں اور تنظيميں کام کر رہي ہيں تو اب بھي بيٹيوں کو کم تر سمجھنے سے متعلق فرسودہ اقوال اور بے بنياد تصورات معاشرے ميں موجود ہيں، نہ صرف ذہني اور معاشي پسماندہ طبقوں ميں بلکہ ايسے تصورات نچلي سطح سے لے کر ہائي سوسائٹي تک ديکھے جاسکتے ہيں۔
    ہم اکثر سنتے ہيں کہ آپ بيٹي کے باپ ہيں اور بيٹي کے باپ کا سر ہميشہ نيچا رہتا ہے، اسے بہت کچھ سننا اور سہنا پڑتا ہے، اسے اپني بات ہميشہ نيچے رکھني پڑتي ہے۔ جہاں آپ نے اپني بيٹي دے دي پھر وہاں بولنے کا کيا سوال؟ بيٹي کے باپ کے لئے عزت، خوشي اور مسکراہٹ کہاں؟ اسے تو عمر بھر رونا ہے۔ يہ باتيں نہ صرف مسلمان معاشرے ميں سني جاتي ہيں بلکہ بعض افراد تو دبے الفاظ ميں ان کي تائيد بھي کرتے ہيں حالانکہ حقيقت يہ ہے کہ اس طرح کي باتيں قطعي ذہني پسماندگي، جہالت اور فرسودہ روايات کي اندھي پيروي کے سوا کچھ بھي نہيں ہيں۔
    آج سے چودہ سو سال پہلے عرب معاشرے ميں بيٹي کے وجود کے بارے ميں جو تصورات تھے، ان کا نقشہ قرآن ميں خدا نے کچھ يوں کھينچا ہے۔
    ’’جب ان ميں سے کسي کو بيٹي پيدا ہونے کي خوش خبري دي جاتي ہے تو اس کے چہرے پر نحوست چھا جاتي ہے اور وہ بس خون کا گھونٹ پي کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بري خبر کے بعد کيا کسي کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے ذلت کے ساتھ بيٹي کو لئے رہے يا زندہ مٹي ميں دبا دے۔ کيسے برے حکم ہيں جو (يہ لوگ) خدا کے بارے ميں لگاتے ہيں۔‘‘ (القرآن)
    يہ ايک ايسے معاشرے کا اندازِ فکر تھا جو جہالت کي تاريکيوں ميں ڈوبا ہوا تھا ليکن اس وقت جب دنيا ميں نہايت پائے کي يونيورسٹياں، اسکول، مدارس، اساتذہ، پروفيسرز، دانشور اور علمائے کرام موجود ہيں، اس کے باوجود بيٹي کو بوجھ تصور کرنے کي سوچ کو پوري طرح دور نہيں کيا جاسکا ہے۔
    ہم نے اس سلسلے ميں کچھ لوگوں جب بيٹي کے رشتے کا معاملہ آئے تو !
    آئيے اب ہم اس انتہائي اہم نکتہ پر بات کرتے ہيں کہ بيٹي کے رشتے کے معاملے ميں وہ کون سي بنيادي چيزيں ہيں جن کا ہميں لحاظ رکھنا ہے جو نہ صرف والدين کے لئے بلکہ ان کي بيٹي کے لئے بھي بہت ضروري ہیں۔ ان بنيادي باتوں پر ہي آپ کي بيٹي کي آئندہ زندگي کا دار و مدار ہے اور دين اور دنيا کا بھي يہي تقاضا ہے۔ اہلِ دانش اور بعض علمائے کرام نے بھي ان چار اہم باتوں کو بيٹي کا رشتہ طے کرتے ہوئے انتہائي اہميت دي ہے۔
    مالي حالت:
    ايک بات ذہن ميں رکھني چاہيے کہ مالي خوش حالي ديني اعتبار سے بھي کسي لحاظ سے ايسي چيز نہيں ہے کہ جس کا خيال نہ کيا جائے۔ ديگر باتوں کے ساتھ اس بات کو بھي اہميت حاصل ہے کہ آپ جہاں لڑکي کے رشتے کي بات چلا رہے ہيں اس شخص کي ديني حيثيت کے ساتھ مالي حالت کيسي ہے؟ اسلام نے جائز ذرائع سے حاصل کئے ہوئے مال کو خدا کا انعام قرار ديا ہے، اسے اپنا فضل کہا ہے، خير کہا ہے اور بھلائي سے ياد کيا ہے۔ يہاں تک کہ فضل تلاش کرنے کي ترغيب دي ہے ۔دين نے مال کو قيام کہا ہے۔ قيام يا قوام اس جوہر کو کہتے ہيں جس پر کسي چيز کے وجود کي بنياد ہوتي ہے اور مال کو زندگي کا قوام کہا ہے کيونکہ مال پر زندگي کا دارومدار ہے اور زندگي کي بيشتر ديني اور دنياوي ضرورتيں اسي سے پوري ہوتي ہيں اور بلاشبہ زندگي کي رونق کا ايک بڑا ذريعہ مال ہے۔ پيسے کے ذريعے عادات و اطوار، برتاو اور سلوک کے حوالے سے انسان ميں کچھ اعليٰ قدريں بھي پيدا ہوتي ہيں۔ ايک ايسا شخص سخاوت کر ہي نہيں سکتا جس کے پاس کسي کو دينے کے لئے کچھ نہ ہو۔ زندگي کي آسائشيں مال سے حاصل ہوتي ہيں۔ ايک حد تک معاشرے ميں اس سے مقام بھي بنتا ہے۔ لہٰذا بيٹي کا رشتہ کرتے ہوئے ديگر باتوں کے ساتھ اس بات کا بھي خيال کرنا بہت ضروري ہے کہ متعلقہ شخص کي مالي حالت کيسي ہے؟ کيا وہ آپ کي بيٹي کي بنيادي ضروريات، کھانا پينا، رہائش وغيرہ کے انتظام کرنے کا اہل ہے۔ جس ماحول ميں آپ نے اپني بيٹي کي پرورش کي ہے اور جو سہوليات ماں باپ کے گھر ميں اسے حاصل تھيں، کيا مستقبل ميں بھي اسے حاصل رہيں گي؟ کيونکہ يہ ايک حقيقت ہے کہ مالي حالات ميں بہت زيادہ فرق بعض اوقات لڑکي کے لئے پريشاني اور الجھنوں کا سبب بن جاتا ہے۔ ا س لئے بعض علمائے دين نے بھي صاف طور پر لکھا ہے کہ مال و دولت قطعي طور پر نظر انداز کرنے کي چيز نہيں ہے۔ اگر کوئي ايسا مشورہ ديتا ہے تو اسے خود اپنے مشور ے پر نظرِ ثاني کرنے کي ضرورت ہے۔ ہاں اگر زيادہ فرق نہيں ہے اور ديگر کئي باتيں لڑکے ميں اچھي ہيں تو والدين کو صرف مال و دولت ہي کو بنياد نہيں بنانا چاہيے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ مستقبل ميں اس کي اس کمي کو بھي پورا کردے۔
    خاندان يا حسب نسب:
    بيٹي کا رشتے طے کرتے ہوئے خاندان ديکھنا بھي بہت اہم ہے۔ يہاں بھي يہ چيز ذہن ميں رکھني چاہيے کہ بعض لوگ حسب و نسب کو غلط معني اور مفہوم ميں ليتے ہيں۔ خاندان ديکھنے سے نسلي برتري ہرگز مراد نہيں ہے۔ بے شک سارے انسان آدمٴ کي اولاد ہيں اور کسي پر کسي کو محض نسب کي وجہ سے برتري حاصل نہيں ہے۔ بلاشبہ اللہ کے نزديک زيادہ عزت والا وہي ہے جو زيادہ پرہيزگار ہے۔ ليکن جب خاندان اور برادري کي بات کي جاتي ہے تو اس کي يہ وجہ نہيں ہوتي کہ آپ کسي خاندان کو چھوٹا يا نيچا سمجھتے ہيں يا آپ کسي نسلي غرور ميں مبتلا ہيں۔ کسي خاندان کو دوسرے خاندان پر ترجيح دينے کي بعض معقول وجوہات ہوتي ہيں اور بيٹي والے کو ان کا خيال کرنا ہي پڑتا ہے، ورنہ اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ دونوں خاندانوں ميں مستقبل ميں مسائل پيدا ہوسکتے ہيں کيونکہ بعض خاندانوں کے رہن سہن، عادات و اطوار، طبيعت، مزاج، ذوق و سليقہ، حالات و روايات ايک دوسرے سے مختلف ہوتي ہيں۔ ہوسکتا ہے کہ کسي گھرانے ميں خواتين کے حوالے سے ايسي روايات موجود ہوں جو آپ کي بيٹي کے لئے گراں گزرے۔ اسي طرح بعض گھرانوں کے مذہبي نظريات بھي ايک دوسرے سے متصادم ہوتے ہيں۔ مکتب فکر کا بہت زيادہ فرق ہوتا ہے، لڑکي الگ سوچ رکھتي ہے جب کہ لڑکا اس سے بالکل مختلف۔ اگرچہ يہ بات بہ ظاہر معمولي نظر آسکتي ہے ليکن ازدواجي زندگي پر يہ اثرانداز ہوسکتي ہے۔ اپني بيٹي کو کسي ايسے خاندان ميں بھيجنا جس کا رہن سہن، اندازِ معاشرت، عادات و اطوار اور حالات و روايات آپ کے خاندان سے متصادم ہوں، عقلمندي نہيں ہے۔ ايسے ماحول ميں زيادہ امکان يہي ہے کہ لڑکي خود کو ايڈجسٹ کرنے ميں ناکام رہے گي اور اگر وہ سمجھوتہ کر بھي ليتي ہے تو پوري زندگي اسے قدم قدم پر خود کو مارنا پڑے گا اور ايسے مسائل پيدا ہوتے رہيں گے جو لڑکي کے لئے تکليف اور کوفت کا سبب ہوں گے اور لڑکي کي زندگي بدمزہ اور بے رونق ہوکر رہ جائے گي۔ بيٹي کي محبت، آپ کي دانائي اور معاشرتي سوجھ بوجھ کا بھي يہي تقاضا ہے کہ آپ بيٹي کا رشتہ طے کرتے وقت خاندان اور برادري کو ذہن ميں رکھيں اور خاندان کے رہن سہن اور ان کے ماحول سے آگاہ ہوں۔ علمائے کرام نے اس حوالے سے کفو کي جو بات کي ہے، اس کا مفہوم بھي يہي ہے کہ شادي کرتے وقت خاندان کو بھي ذہن ميں رکھا جائے تاکہ شادي کامياب ہو۔
    حسن و جمال:
    يہ ٹھيک ہے کہ بيٹي کي شادي کرتے ہوئے صرف شکل و صورت اہم نہيں ہے ليکن شکل و صورت کي انتہائي اہميت بھي ہے اور مذہب نے اس معاملے ميں دونوں کو يہ اختيار ديا ہے۔ اچھي صورت ہر ايک کو اچھي لگتي ہے، جس طرح مال و دولت کو خدا کا انعام قرار ديا گيا ہے، بالکل اسي طرح اچھي شکل و صورت کو بھي اللہ کا انعام کہا گيا ہے۔ کوئي وجہ نہيں کہ بيٹي کے لئے اس کے شوہر کا انتخاب کرتے وقت شکل و صورت کو نظر انداز کيا جائے يا اس کا سرے سے لحاظ ہي نہ رکھا جائے۔ کوئي شخص اپنے لئے بيوي کا انتخاب کرتے وقت يقينا خوبصورتي کو نظر انداز نہيں کرسکتا، تو يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپني بيٹي کے لئے لڑکے کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کو ذہن ميں نہ رکھے۔ رسول اللہ ۰ کا ارشاد ہے کہ ’’انَّ اللّٰہ جميل و يُحبُّ الجمال‘‘ (اللہ جمال والا ہے اور جمال کو پسند کرتاہے )۔ لہٰذا کوئي وجہ نہيں کہ بيٹي کے رشتے کے لئے مردانہ وجاہت کا خيال نہ رکھا جائے۔ پھر يہ بات بھي حقيقت ہے کہ يہ معاملہ صرف لڑکي تک محدود نہيں ہے بلکہ اس کے اثرات آئندہ نسلوں اور ان کي اولاد تک بھي منتقل ہوتے ہيں کيونکہ اولاد ماں باپ ہي کي شکل و شباہت لے کر دنيا ميں آتي ہے۔ اس لئے دانائي اور بصيرت کا تقاضا يہي ہے کہ آپ يہ فيصلہ سنجيدگي سے کريں۔ محض جذبات ميں آکر فيصلہ کرنا يا محض رشتے داري کي خاطر اس چيز کو نظر انداز کرنا دانش مندي نہيں ہے۔
    لڑکي کي رائے:
    رشتہ طے کرتے ہوئے سب سے اہم بات يہ ہے کہ آپ اس سے بھي پوچھيں جس کي زندگي کے بارے ميں آپ اتنا اہم فيصلہ کرنے جارہے ہيں۔ ہمارے ہاں آج بھي بيشتر گھرانوں ميں لڑکي سے اس بارے ميں رائے لينے کو ضروري خيال نہيں کيا جاتا بلکہ آج بھي ايسے لوگوں کي ايک بڑي تعداد موجود ہے جو سمجھتے ہيں کہ لڑکي کو اس معاملے ميں بولنے کا اختيار حاصل نہيں ہے۔ يہ کام والدين کا ہے کہ وہ اس کے بارے ميں کس شخص کا انتخاب کرتے ہيں۔ يہاں يہ چيز سمجھ ليني چاہيے کہ يہ کوئي قبائلي يا خانداني روايت تو ہوسکتي ہے ليکن اسلام سے اس کا کوئي تعلق نہيں ہے۔ نکاح کے دوران لڑکي سے پوچھنا اس بات کي واضح دليل ہے کہ اسلام نے اس بات کا لڑکي کو مکمل اختيار ديا ہے کہ شادي کا فيصلہ اس کي مرضي اور منشاکے بغير ہرگز ہرگز نہيں کيا جاسکتا۔ لہٰذا والدين کے لئے يہ بہت ضروري ہے کہ وہ اس لڑکے اور خاندان کے بارے ميں اپني بيٹي کو آگاہ کريں۔ لڑکے کي شکل و صورت، تعليم، اس کے پيشے اور ديگر ضروري تفصيلات کا لڑکي کو علم ہونا چاہيے۔ اس کے علاوہ والدين کو چاہيے کہ اگر گھر ميں کوئي اور بھي اولاد جوان ہے، دادا دادي ہيں تو ان سے بھي مشورہ لیں۔ مشورے ميں برکت ہوتي ہے۔ ايسے فيصلوں کو کرتے وقت انا کو درميان ميں نہيں لايا جانا چاہيے۔
    ہمارے ہاں اکثر گھرانوں ميں يہ چيز ديکھنے کو ملتي ہے کہ باپ اپنے کسي قريبي رشتے دار کي طرف جھکاو رکھتا ہے، ماں اپنے کسي قريبي رشتے دار سے بيٹي کي شادي کرنا چاہتي ہے، ان حالات ميں بے چاري اولاد سينڈوچ بن کر رہ جاتي ہے۔ بعض اوقات تو يہ معاملہ خاصي سنگين صورت بھي اختيار کر جاتا ہے اور پورا گھرانہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ ان حالات ميں والدين کو يہ بات سوچني چاہيے کہ بيٹي کي شادي صرف ايک شخص کا معاملہ نہيں بلکہ يہ دو خاندانوں کا ملاپ ہے جس کے اچھے اور برے اثرات پورے خاندان پر مرتب ہوتے ہيں۔
    لڑکے کا اخلاق و کردار:
    بے شک لڑکے کا مالي اعتبار سے مستحکم ہونا، خوش شکل ہونا يا خاندان کا اچھا ہونا، سب باتيں اپني جگہ اہميت کي حامل ہيں ليکن ان ساري باتوں کے باوجود يہ بات نہايت بنيادي اہميت کي حامل ہے کہ لڑکے کا کردار اور اخلاق کيسا ہے؟ اس کا بيٹھنا اٹھنا کس قسم کے لوگوں کے ساتھ ہے؟ اگر لڑکے کے گھروالوں کي مالي حيثيت مضبوط ہے تو لڑکے کا اس ميں اپنا کس حد تک کردار ہے؟ اس کے مستقبل کے بارے ميں بھي تھوڑا بہت علم ہونا ضروري ہے، اگر آپ مطمئن ہوں تو ہاں کہہ ديجئے اور رشتے کا پيغام اس اميد اور يقين کے ساتھ قبول کيجئے کہ اللہ کا يہي فيصلہ ہے۔ حضرت محمد ۰ کا يہ ارشاد ايک حقيقت ہے کہ بيٹي کا رشتہ طے کرتے ہوئے اس سے بہتر کوئي اور پيمانہ ہو ہي نہيں سکتا۔ آپ۰ نے فرمايا: جب تمہارے يہاں کوئي ايسا شخص نکاح کا پيغام دے جس کے دين و اخلاق سے تم مطمئن ہو اور خوش ہو تو اس سے بچي کي شادي کردو، اگر تم ايسا نہ کروگے تو زمين ميں زبردست فتنہ اور فساد پھيل جائے گا۔
    __________________
    أضواء
    أضواء
    Administrater
    Administrater


    Posts : 762
    Join date : 14.01.2010
    Location : دمــام (سعوديــه )

    بيٹياں والدين پر بوجھ کيوں؟ Empty Re: بيٹياں والدين پر بوجھ کيوں؟

    Post by أضواء Sun Apr 25, 2010 5:38 pm

    السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

    جزاك الرحمن الجنه

    نسال الله لنا ولكم التوفيق و السداد

      Current date/time is Mon May 20, 2024 1:52 am