آنکھوں میں لے کے جلتے ہوئے موسموں کی راکھ دردِ سفر کو تن کا لبادہ کیے ہوئے دیکھو تو کون لوگ ہیں آئے کہاں سے ہیں اور اب ہیں کس سفر کا ، ارادہ کیے ہوئے ؟
آپ کی آنکھ سے گہرا ہے میری رُوح کا زخم آپ کیا سوچ سکیں گے میری تنہائی کو میں تو دَم توڑ رہا تھا مگر افسردہ حیات خود چلی آئی میری حوصلہ افزائی کو لذتِ غم کے سوا تیری نگاہوں کے بغیر کون سمجھا ہے میری زخم کی گہرائی کو