تعبیر

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

    سچائی او راعترافِ قصور کی برکت

    اعجازالحسینی
    اعجازالحسینی


    Posts : 184
    Join date : 17.02.2010

    سچائی او راعترافِ قصور کی برکت Empty سچائی او راعترافِ قصور کی برکت

    Post by اعجازالحسینی Wed Mar 17, 2010 11:07 pm

    یہ عہد نبوی کا ایک واقعہ ہے، جوان تین قدسی نفوس کے دل افروز وایمان پر ورداستان پر مشتمل ہے، جو غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے ، یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس میں انسانی نفسیات کی کشاکش، خیر وشر کی آویزش اور شر کے مقابلہ میں بالآخر خیر کے غلبہ کا اعلان ہے۔ صحابہ کی ایمانی تربیت میں مربی کا عتاب اور پیار دونوں کی جھلک ہے۔

    … تبوک کا یہ واقعہ، جو باقاعدہ کسی جنگ کے بغیر انجام پایا، متعدد قسم کے حالات اور خصوصیات کا حامل رہا، ایک تو یہ کہ بڑے سخت گرمی کے موسم میں پیش آیا، جس میں شہر کے باغات کے اندر کے خوش گوار موسم اور گھروں کے آرام سے نکل کر خشک او رگرم صحراؤں سے گزرنا تھا اور مدینہ منورہ کے باغات کے پھلنے کا وقت بھی یہی تھا، ایک طرف ان کی دیکھ بھال اور سب چھوڑ کر طویل فاصلہ کی مہم پر جانا بڑے ایمان کی بات تھی، وہ لوگ جواپنے کو ظاہراً مسلمان پیش کرتے تھے اور اپنے کفر کو چھپاتے تھے ، ان کا نفاق الله تعالیٰ نے خاص طور پر اس وقت کھلے طور پر ظاہر فرما دیا کہ انہوں نے مختلف بہانے کرکے ساتھ جانے سے اپنے کو بچا لیا، چناں چہ قرآن مجید میں اس موقع کے سلسلہ میں جب آیات نازل ہوئیں تو ان کی کھلیہوئی مذمت کی گئی ان کے ساتھ ساتھ چند افراد ایسے بھی تھے کہ جو منافق تونہ تھے، لیکن بعض موانع کی وجہ سے بلاکسی برے ارادہ کے جانے سے رہ گئے تھے ، ان کا امتحان دوسرے طریقہ سے ہوا، یعنی شہر کے اندران کے بائی کاٹ کا حکم دیا گیا اور وہ لوگ پورے چالیس روز اپنے ساتھیوں ، عزیزوں وغیرہ سے ربط وتعلق اور عورتوں سے محروم رہے اور اس درمیان میں ان کو بتایا بھی نہیں گیا کہ یہ بائی کاٹ کب تک کے لیے ہے ، چناں چہ وہ نفسیاتی کرب میں بھی رہے۔

    دراصل حضور صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ان کے ایمان ویقین کو مضبوط کرنے کے لیے اس طرح کے امتحانات سے گزارتے تھے، ان سے گزر جانے والا اس خالص سونے کی طرح نکھر جاتا ہے جو کہ بھٹی میں سے گز رکر خالص بنتا ہے ، اس طرح کا واقعہ حضرت کعب بن مالک کی ہی زبان سے سنیے۔

    ”حضرت عبدالله بن کعب بن مالک سے روایت ہے ( جب کعب بن مالک نابینا ہو گئے تو یہی بیٹے ان کے ساتھ چلتے تھے) کہ میں نے کعب بن مالک سے سنا ہے ، وہ غزوہٴ تبوک میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے کا قصہ یوں بیان کرتے تھے کہ میں کسی غزوہ میں کبھی بھی غیر حاضر نہیں رہا، سوائے غزوہ تبوک اور غزوہٴ بدر کے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے غزوہٴ بدر کی عدم شرکت پر کسی پر عتاب نہیں فرمایا تھا، کیوں کہ بات یہ تھی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور مسلمان قریش کے شام سے آنے والے قافلہ ( کی رکاوٹ کرنے) کے ارادہ سے نکلے تھے ( وہ قافلہ تو آپ کے پہنچنے سے قبل آگے نکل گیا، لیکن اس بہانہ) الله تعالیٰ نے ان کو اور ان کے اصل دشمنوں کو بغیر کسی وقت مقررہ کے جمع کردیا ( اس لیے اس میں متعدد مسلمان شرکت نہ کرسکے، کیوں کہ اس موقع پرباقاعدہ جنگ کا منصوبہ نہ تھا)، البتہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بیعت عقبہ واقع منی میں بوقت حج شریک ہوا تھا، جب کہ ہم نے اسلام پر عہد کیا تھا اور میں عقبہ کی اس شرکت پر بدر کی شرکت کو ترجیح نہیں دیتا، اگر چہ بدر لوگوں میں زیادہ مشہور ہے۔

    میرا قصہ یہ ہے کہ میں جب غزوہٴ تبوک میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے رہا، اس وقت مجھ میں قوت بھی تھی اور فراغت بھی ، خدا کی قسم! میرے پاس ایک وقت دو اونٹ کبھی بھی نہیں ہوئے تھے، لیکن اس غزوہ میں میرے پاس ایک چھوڑ ،دو دو سواریاں تھیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تھے لوگ سمجھتے تھے کہ آپ کواسی کی طرف جانا ہے دفعةً آپ صلی الله علیہ وسلم دوسری طرف کا رخ فرمالیتے، لیکن ( اس موقع پر) اپنی اختیا رکردہ سمت کو ظاہر کر دیا ( کہ تبوک جانا ہے ) کیوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس غزوہ کی تیاری سخت گرمی میں کی ، دور کا سفر تھا ، خشک وسخت مسافت تھی اور شمنوں کی بڑ ی تعداد کا مقابلہ، اس لیے اس مہم کا اظہار کر دیاتھا اور ان کو اس سمت کی خبر دے دی تھی، تاکہ پورے طور پر تیاری کر لیں ، اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت ہو چکی تھی اور ان کی کوئی فہرست نہ تھی، اگر آدمی چھپنا چاہتا تو چھپ جاتا اور کسی کو گمان بھی نہ ہوتا جب تک کہ اس کے بارے میں الله کی طرف سے وحی نہ نازل ہوتی۔

    آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ غزوہ اس وقت کیا جب کھجور پک گئی تھی او رسایہ بڑا خوش گوار ہو گیا تھا اور مجھے اس میں بڑا مزا آتا تھا ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے سامان سفر شروع کر دیا، میں ہر روز صبح کو اسی ارادہ سے آتا کہ میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جانے کی تیاری کروں ، لیکن یونہی پلٹ جاتا او رکوئی فیصلہ نہ کر پاتا تھا، میں اپنے دل میں کہتا تھا کہ جلدی کیا ہے ، جب بھی ارادہ کروں گا چلا جاؤں گا، کیوں کہ مجھ میں اس کی استطاعت ہے، لیکن برابر میرا یہی ( لیت ولعل ) رہا ، یہاں تک کہ سفر کی ہما ہمی اور سر گرمی پوری ہو گئی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رمسلمان بالآخر روانہ ہو گئے او راس وقت تک میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکا، صبح کو آتا او رکچھ انتظام کیے بغیر پلٹ جاتا ، روزانہ یہی کیفیت رہتی، یہاں تک کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اور مجاہدین بہت آگے تک گئے او رمیرے لیے جہاد میں شرکت کرسکنے کا وقت نکل گیا، پھر بھی میں نے ارادہ کیا کہ اب بھی چلاجاؤں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو پالوں، کاش میں یہی کرتا، لیکن یہ بھی نہ کیا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جانے کے بعد جب میں گھر سے باہر نکلتا تھا تو مجھے رنج ہوتا تھا کہ اس معاملہ میں میرے شریک حال وہی لوگ تھے جو منافق تھے یا معذور اور مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اثنائے سفر میں یاد نہیں فرمایا، تبوک پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کعب بن مالک کو کیا ہوا؟ بنی سلمہ کے ایک آدمی نے کہا یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم )ان کو اپنی ( خوش نما) چادر اور جُھک جُھک کر اس کے کناروں کو دیکھنے نے اس کی فرصت ہی کہاں دی کہ وہ ہمارے ساتھ آتے ۔ معاذ بن جبل  نے کہا: بری بات تم نے کہی ، الله کی قسم یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم)! ان میں سوائے بھلائی کے ہم کچھ نہیں پاتے۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش ہو گئے اورآپ صلی الله علیہ وسلم اسی حال میں تھے کہ ایک سفید پوش آدمی گرداڑاتا ہوا آرہا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ابوخیثمہ! تووہ ابوخیثمہہی تھے، یہ وہی تھے جنہوں نے ایک صاع کھجوروں کا صدقہ کیا، تو ان پر منافقین نے طنز کیا تھا۔

    حضرت کعب کہتے ہیں کہ جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تبوک سے پلٹنے والے ہیں تو مجھے فکر شروع ہو گئی او رمیں اپنے دل ہی دل میں ترکیبیں سوچنے لگا اور میں اصلاً یہ سوچتا تھا کہ میں کل آپ صلی الله علیہ وسلم کی ناراضگی سے کیسے بچوں گا، میں اپنے گھرو الوں میں ہر صاحب رائے سے اس بارے میں مدد چاہتا،جب یہ خبر ملی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تشریف لے آئے تو میرا سب سوچا ہوا ذہن سے نکل گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ میں جھوٹی بات بتا کر نجات نہ پاؤں گا، لہٰذا میں نے سچ بولنے کی ٹھان لی۔
    اعجازالحسینی
    اعجازالحسینی


    Posts : 184
    Join date : 17.02.2010

    سچائی او راعترافِ قصور کی برکت Empty Re: سچائی او راعترافِ قصور کی برکت

    Post by اعجازالحسینی Wed Mar 17, 2010 11:10 pm

    رسول الله صلی الله علیہ وسلم صبح تشریف لائے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کسی سفر سے پلٹتے تھے تو پہلے مسجد میں آتے تھے ، اس میں دو رکعتیں پڑھ کر پھر لوگوں کے پاس بیٹھتے تھے، جب آپ صلی الله علیہ وسلم فارغ ہوئے تو پیچھے رہ جانے والے آآ کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے عذر کرنے لگے اور قسمیں کھانے لگے ، وہ کچھ اوپر80 (اسی) آدمی تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے ظاہری دعوے قبول کیے ، ان سے بیعت لی، ان کے لیے بخشش کی دعا کی اور ان کے دل کے بھیدوں کو الله کے سپرد کیا ، پھر میں آیا جب میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم غصہ کے انداز میں مسکرائے اور فرمایا آؤ، میں آیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا کس سبب سے تم شریک نہیں ہو سکے، کیا تمہارے پاس سواری نہ تھی؟ میں نے عرض کیا یا رسول الله ! الله کی قسم! اگر میں کسی دنیا والے کے پاس بیٹھا ہوتا تو اس کی ناراضگی سے عذر کرکے نکل جاتا، اس لیے کہ مجھ میں عمدہ طریقہ سے بات کرنے کا سلیقہ ہے ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر آج میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے جھوٹ بات کہہ دوں گا تو آپ صلی الله علیہ وسلم راضی ہو جائیں گے، مگر قریب ہے کہ الله تعالیٰ آپ صلی الله علیہ وسلم کو مجھ سے ناراض کر دے او راگر میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے سچی بات کہہ دوں تو آپ صلی الله علیہ وسلم ناراض تو ضرور ہوں گے، لیکن میں اس میں الله عزوجل کے انعام کی امید رکھتا ہوں ، سچی بات یہ ہے کہ میرے لیے کوئی عذر نہیں تھا ، والله! میں کبھی اتنا فارغ البال نہیں تھا جتنا کہ اس موقع پر تھا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے تو سچی بات کہہ دی ، جاؤ !یہاں تک کہ الله تعالیٰ تمہارے حق میں کوئی فیصلہ کرے۔

    میں اٹھا اور میرے ساتھ ہی بنی سلمہ کے کچھ لوگ بھی اٹھ کر آئے اورکہنے لگے ، ہم کو معلوم نہیں کہ اس سے پہلے تم نے کوئی گناہ کیا ہو ، تم ( اس موقع پر کیسے ) عاجز ہو گئے او رکوئی عذر نہ کرسکے، جیسے دوسرے عذر خواہوں نے عذر پیش کیے ؟ اگر تم بھی کوئی عذر کر دیتے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تمہارے لیے بخشش چاہنا تمہارے گناہ کی معافی کے لیے کافی ہو جاتا ، اسی طرح وہ برابر ملامت کرتے رہے ، یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف پلٹ جاؤں او رجھوٹ بول دوں، پھر میں نے ان سے کہا : کیا میری طرح کوئی اور بھی ہے ؟ بولے ہاں! دو آدمی ہیں ، انہوں نے بھی وہی کہا جو تم نے کہا اور ان سے بھی وہی کہا گیا جو تم سے کہا گیا۔ میں نے کہا وہ کون ہیں؟ بولے ایک تو مرارة بن ربیعہ ہیں اور دوسرے ہلال بن امیہ ہیں اورجب میں نے ان دونوں کا ذکر سنا تو گھر چلا آیا، کیوں کہ انہوں نے ایسے دو نیک آدمیوں کا ذکر کیا، جو بدر میں شریک تھے، وہ دونوں میرے لیے اچھا نمونہ تھے۔

    اب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ہم تینوں سے کوئی بات نہ کرے تو لوگ کنارہ کش ہو گئے اور ایسا رخ بدلا گویا کبھی جان پہچان تھی ہی نہیں ، یہاں تک کہ میرا دل تنگ ہو گیا او رزمین وہ زمین ہی معلوم نہیں ہوتی تھی جس کو میں پہچانتا تھا، اس حالت میں ہم پر پچاس راتیں گزر گئیں، میرے دونوں ساتھی تو اپنے گھروں میں تھک کر بیٹھ گئے او رروتے رہے، لیکن میں جوان آدمی تھا، نکلتاتھا، لیکن ہم سے کوئی بات نہ کرتا تھا، میں مسجد میں آتا تھا، نماز کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب اپنی مجلس میں تشریف رکھتے ،میں سلام کرتا اور ان کو دیکھ کر دل میں کہتا، کیا آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہونٹوں کو جواب دینے میں حرکت ہوئی؟ پھر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب نماز پڑھتا اور چھپی نظر سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھتا، جب نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم مجھ کو دیکھتے اور جب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم مجھ سے بے رخی کرتے۔

    مسلمانوں کی بے رخی کو مدت ہو گئی تھی ، ایک دن میں ابوقتادہ کی طرف گیا، وہ میرے چچا زاد بھائی ہوتے تھے اور مجھے بہت محبوب تھے ، میں ان کے باغ کی دیوار پھاند کر اندر پہنچا اور ان کو سلام کیا والله! انہوں نے میرے سلام کا جواب تک نہ دیا ، میں نے کہا: اے ابوقتادہ! میں تم سے الله کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ مجھے الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت ہے ، وہ خاموش رہے ، میں نے دوبارہ قسم دی، مگر وہ خاموش رہے ، پھر میں نے ان کو قسم دی ، انہوں نے کہا الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں ۔ اس وقت میری دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں چلا آیا۔

    میں مدینہ کے بازار میں پھر رہا تھا کہ ایک نبطی شام کے نبطیوں میں سے تجارت کا غلہ لے کر آیا ،کہتا تھا کہ کوئی شخص مجھے کعب بن مالک کا پتہ دے سکتا ہے ؟ لوگ میری طرف اشارہ کرنے لگے ، وہ میرے پاس آیا اور غسان کے بادشاہ کا ایک خط دیا، میں نے اس کو پڑھا، اس میں لکھا تھا ” مجھے خبر ملی ہے کہ تمہارے آقاتم سے ناراض ہیں، تم ذلت وناقدری کی جگہ رہنے پر مجبور نہیں ہو ، تم ہمارے پاس آؤ، ہم تمہاری غم خواری کریں گے۔ “ جب میں اس کو پڑھ چکا تو میرے رنج کی کوئی حد نہ رہی ، میں نے کہا یہ اور بڑی مصیبت ہے او رمیں نے اس خط کو تنور میں جھونک دیا۔

    اسی حالت پر چالیس راتیں گزریں، وحی عرصہ سے نہیں آئی تھی، ناگاہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ایک قاصد میرے پاس آیااور کہا: رسول الله صلی الله علیہ وسلم تم کو حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ ہو جاؤ اور ان کے قریب نہ جاؤ ، اسی طرح میرے دونوں ساتھیوں کو بھی حکم پہنچا، میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک کہ الله تعالیٰ اس معاملہ کا فیصلہ نہ کرے۔ ہلال بن امیہ کی بیوی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا : یا رسول الله! ابن امیہ بوڑھے ہیں اور کوئی خادم نہیں ، کیا آپ صلی الله علیہ وسلم ناپسند کرتے ہیں کہ میں ان کی خدمت کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن وہ تم سے قریب نہ ہو ، انہوں نے کہا: خدا کی قسم! ان میں کوئی حس وحرکت نہیں ، جب سے یہ قصہ ہوا ہے وہ برابر روتے ہی رہتے ہیں۔

    مجھ سے میرے گھر والوں نے کہا ،تم بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے بارے میں اجازت طلب کرو، جیسے ہلال بن امیہ کی بیوی نے اپنے شوہر کی خدمت کی اجازت لی ہے۔ میں نے کہا کہ میں اجازت نہ مانگوں گا، میں نہیں جانتا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کیا جواب دیں گے ، اس لیے کہ میں جو ان آدمی ہوں۔

    اسی حالت پر ہم نے مزید دس راتیں گزاریں ، وہ پوری پچاس راتیں ہوگئیں ، میں نے پچاسویں رات کی صبح کو اپنے گھر کی چھت پر نماز پڑھی، میں اسی حالت میں بیٹھا تھا جس کا نقشہ الله نے کھینچا ہے ، مجھ پر میرا دل تنگ ہو گیا تھا اور زمین وسعت کے باوجود مجھ پر تنگ ہو گئی تھی کہ میں نے کوہ سلع سے ایک پکارسنی، کوئی بلند آواز سے کہہ رہا تھا ” اے کعب بن مالک! تم کو بشارت ہو۔ “ یہ سنتے ہی میں سجدہ میں گر پڑا اور میں نے سمجھ لیا کہ مسرت کی گھڑی آگئی۔

    صبح کی نماز پڑھ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله عزوجل کی طرف سے ہماری توبہ کی قبولیت کااعلان کیا ، لوگ ہم کو بشارت دینے لگے اور کچھ لوگ میرے دونوں ساتھیوں کی طرف بشارت دینے کے لیے چلے گئے،ایک گھوڑ سوار دورتا ہوا آیا اور قبیلہ اسلم کا ایک آدمی پیدل آیا اور پہاڑ پر چڑھا، اس کی آواز گھوڑے سے بھی زیا دہ تیز تھی ، جب وہ میرے پاس آیا اور مجھ کو بشارت سنانے لگا تو ( خوشی میں ) میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو پہنا دیے، والله! میں اس وقت ان ہی دو کپڑوں کا مالک تھا، پھر میں نے دو کپڑے مستعار لیے اور ان کو پہن کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس جانے کے ارادہ سے چلا، لوگ مجھ سے جوق درجوق ملتے تھے اورتوبہ کی مبارک باد دیتے تھے او رکہتے تھے تو بہ کی قبولیت مبارک ہو، یہاں تک کہ میں مسجد میں آیا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم بیٹھے تھے اور لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے گرد جمع تھے ، طلحہ بن عبیدالله مجھ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا او رمبارک باد دی، والله! مہاجرین میں ان کے سوا کوئی نہیں کھڑا ہوا، میں طلحہ کا یہ احسان نہیں بھو ل سکتا، جب میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ( اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے دمک رہا تھا) ” زندگی کا مبارک ترین دن تم کو مبارک ہو “ میں نے کہا یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے ہے یا الله تعالیٰ کی طرف سے؟فرمایا: نہیں ، بلکہ یہ الله عزوجل کی طرف سے ہے۔

    جب آپ صلی الله علیہ وسلم خوش ہوتے تھے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ ٴ مبارک ایسا چمکتا تھا گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے، ہم اس کیفیت کو پہچانتے تھے ، میں جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تو میں نے کہا: یا رسول الله! میں اس خوشی میں اپنا مال صدقہ کے طور پر الله اور اس کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لیے چھوڑتا ہوں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کچھ مال اپنے لیے روک لو تو تمہارے لیے بہتر ہے ، میں نے کہا خیبر کا حصہ میں نے اپنے لیے رکھ چھوڑا ہے اور میں نے کہا یا رسول الله! الله تعالیٰ نے مجھ کو سچائی کے سبب نجات دی ہے ، اب میری توبہ کا یہ نتیجہ ہونا چاہیے کہ جب تک زندہ رہوں سچ ہی بولوں۔ اور الله کی قسم !جب سے میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سچ سچ کہہ دیا، آج کے دن تک جھوٹ بولنے کا کبھی ارادہ نہیں کیا اور میرے علم میں سچ بولنے میں کسی پر الله تعالیٰ نے ایسا فضل نہیں کیا جیسا مجھ پر فرمایا اور میں امید کرتا ہوں کہ جب تک میں زندہ رہوں گا الله تعالیٰ میری حفاظت کرے گا۔

    مولانا سید محمد رابع ندوی

      Current date/time is Mon May 20, 2024 3:14 am