یہ عہد نبوی کا ایک واقعہ ہے، جوان تین قدسی نفوس کے دل افروز وایمان پر ورداستان پر مشتمل ہے، جو غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے ، یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس میں انسانی نفسیات کی کشاکش، خیر وشر کی آویزش اور شر کے مقابلہ میں بالآخر خیر کے غلبہ کا اعلان ہے۔ صحابہ کی ایمانی تربیت میں مربی کا عتاب اور پیار دونوں کی جھلک ہے۔
… تبوک کا یہ واقعہ، جو باقاعدہ کسی جنگ کے بغیر انجام پایا، متعدد قسم کے حالات اور خصوصیات کا حامل رہا، ایک تو یہ کہ بڑے سخت گرمی کے موسم میں پیش آیا، جس میں شہر کے باغات کے اندر کے خوش گوار موسم اور گھروں کے آرام سے نکل کر خشک او رگرم صحراؤں سے گزرنا تھا اور مدینہ منورہ کے باغات کے پھلنے کا وقت بھی یہی تھا، ایک طرف ان کی دیکھ بھال اور سب چھوڑ کر طویل فاصلہ کی مہم پر جانا بڑے ایمان کی بات تھی، وہ لوگ جواپنے کو ظاہراً مسلمان پیش کرتے تھے اور اپنے کفر کو چھپاتے تھے ، ان کا نفاق الله تعالیٰ نے خاص طور پر اس وقت کھلے طور پر ظاہر فرما دیا کہ انہوں نے مختلف بہانے کرکے ساتھ جانے سے اپنے کو بچا لیا، چناں چہ قرآن مجید میں اس موقع کے سلسلہ میں جب آیات نازل ہوئیں تو ان کی کھلیہوئی مذمت کی گئی ان کے ساتھ ساتھ چند افراد ایسے بھی تھے کہ جو منافق تونہ تھے، لیکن بعض موانع کی وجہ سے بلاکسی برے ارادہ کے جانے سے رہ گئے تھے ، ان کا امتحان دوسرے طریقہ سے ہوا، یعنی شہر کے اندران کے بائی کاٹ کا حکم دیا گیا اور وہ لوگ پورے چالیس روز اپنے ساتھیوں ، عزیزوں وغیرہ سے ربط وتعلق اور عورتوں سے محروم رہے اور اس درمیان میں ان کو بتایا بھی نہیں گیا کہ یہ بائی کاٹ کب تک کے لیے ہے ، چناں چہ وہ نفسیاتی کرب میں بھی رہے۔
دراصل حضور صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ان کے ایمان ویقین کو مضبوط کرنے کے لیے اس طرح کے امتحانات سے گزارتے تھے، ان سے گزر جانے والا اس خالص سونے کی طرح نکھر جاتا ہے جو کہ بھٹی میں سے گز رکر خالص بنتا ہے ، اس طرح کا واقعہ حضرت کعب بن مالک کی ہی زبان سے سنیے۔
”حضرت عبدالله بن کعب بن مالک سے روایت ہے ( جب کعب بن مالک نابینا ہو گئے تو یہی بیٹے ان کے ساتھ چلتے تھے) کہ میں نے کعب بن مالک سے سنا ہے ، وہ غزوہٴ تبوک میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے کا قصہ یوں بیان کرتے تھے کہ میں کسی غزوہ میں کبھی بھی غیر حاضر نہیں رہا، سوائے غزوہ تبوک اور غزوہٴ بدر کے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے غزوہٴ بدر کی عدم شرکت پر کسی پر عتاب نہیں فرمایا تھا، کیوں کہ بات یہ تھی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور مسلمان قریش کے شام سے آنے والے قافلہ ( کی رکاوٹ کرنے) کے ارادہ سے نکلے تھے ( وہ قافلہ تو آپ کے پہنچنے سے قبل آگے نکل گیا، لیکن اس بہانہ) الله تعالیٰ نے ان کو اور ان کے اصل دشمنوں کو بغیر کسی وقت مقررہ کے جمع کردیا ( اس لیے اس میں متعدد مسلمان شرکت نہ کرسکے، کیوں کہ اس موقع پرباقاعدہ جنگ کا منصوبہ نہ تھا)، البتہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بیعت عقبہ واقع منی میں بوقت حج شریک ہوا تھا، جب کہ ہم نے اسلام پر عہد کیا تھا اور میں عقبہ کی اس شرکت پر بدر کی شرکت کو ترجیح نہیں دیتا، اگر چہ بدر لوگوں میں زیادہ مشہور ہے۔
میرا قصہ یہ ہے کہ میں جب غزوہٴ تبوک میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے رہا، اس وقت مجھ میں قوت بھی تھی اور فراغت بھی ، خدا کی قسم! میرے پاس ایک وقت دو اونٹ کبھی بھی نہیں ہوئے تھے، لیکن اس غزوہ میں میرے پاس ایک چھوڑ ،دو دو سواریاں تھیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تھے لوگ سمجھتے تھے کہ آپ کواسی کی طرف جانا ہے دفعةً آپ صلی الله علیہ وسلم دوسری طرف کا رخ فرمالیتے، لیکن ( اس موقع پر) اپنی اختیا رکردہ سمت کو ظاہر کر دیا ( کہ تبوک جانا ہے ) کیوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس غزوہ کی تیاری سخت گرمی میں کی ، دور کا سفر تھا ، خشک وسخت مسافت تھی اور شمنوں کی بڑ ی تعداد کا مقابلہ، اس لیے اس مہم کا اظہار کر دیاتھا اور ان کو اس سمت کی خبر دے دی تھی، تاکہ پورے طور پر تیاری کر لیں ، اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت ہو چکی تھی اور ان کی کوئی فہرست نہ تھی، اگر آدمی چھپنا چاہتا تو چھپ جاتا اور کسی کو گمان بھی نہ ہوتا جب تک کہ اس کے بارے میں الله کی طرف سے وحی نہ نازل ہوتی۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ غزوہ اس وقت کیا جب کھجور پک گئی تھی او رسایہ بڑا خوش گوار ہو گیا تھا اور مجھے اس میں بڑا مزا آتا تھا ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے سامان سفر شروع کر دیا، میں ہر روز صبح کو اسی ارادہ سے آتا کہ میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جانے کی تیاری کروں ، لیکن یونہی پلٹ جاتا او رکوئی فیصلہ نہ کر پاتا تھا، میں اپنے دل میں کہتا تھا کہ جلدی کیا ہے ، جب بھی ارادہ کروں گا چلا جاؤں گا، کیوں کہ مجھ میں اس کی استطاعت ہے، لیکن برابر میرا یہی ( لیت ولعل ) رہا ، یہاں تک کہ سفر کی ہما ہمی اور سر گرمی پوری ہو گئی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رمسلمان بالآخر روانہ ہو گئے او راس وقت تک میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکا، صبح کو آتا او رکچھ انتظام کیے بغیر پلٹ جاتا ، روزانہ یہی کیفیت رہتی، یہاں تک کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اور مجاہدین بہت آگے تک گئے او رمیرے لیے جہاد میں شرکت کرسکنے کا وقت نکل گیا، پھر بھی میں نے ارادہ کیا کہ اب بھی چلاجاؤں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو پالوں، کاش میں یہی کرتا، لیکن یہ بھی نہ کیا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جانے کے بعد جب میں گھر سے باہر نکلتا تھا تو مجھے رنج ہوتا تھا کہ اس معاملہ میں میرے شریک حال وہی لوگ تھے جو منافق تھے یا معذور اور مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اثنائے سفر میں یاد نہیں فرمایا، تبوک پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کعب بن مالک کو کیا ہوا؟ بنی سلمہ کے ایک آدمی نے کہا یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم )ان کو اپنی ( خوش نما) چادر اور جُھک جُھک کر اس کے کناروں کو دیکھنے نے اس کی فرصت ہی کہاں دی کہ وہ ہمارے ساتھ آتے ۔ معاذ بن جبل نے کہا: بری بات تم نے کہی ، الله کی قسم یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم)! ان میں سوائے بھلائی کے ہم کچھ نہیں پاتے۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش ہو گئے اورآپ صلی الله علیہ وسلم اسی حال میں تھے کہ ایک سفید پوش آدمی گرداڑاتا ہوا آرہا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ابوخیثمہ! تووہ ابوخیثمہہی تھے، یہ وہی تھے جنہوں نے ایک صاع کھجوروں کا صدقہ کیا، تو ان پر منافقین نے طنز کیا تھا۔
حضرت کعب کہتے ہیں کہ جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تبوک سے پلٹنے والے ہیں تو مجھے فکر شروع ہو گئی او رمیں اپنے دل ہی دل میں ترکیبیں سوچنے لگا اور میں اصلاً یہ سوچتا تھا کہ میں کل آپ صلی الله علیہ وسلم کی ناراضگی سے کیسے بچوں گا، میں اپنے گھرو الوں میں ہر صاحب رائے سے اس بارے میں مدد چاہتا،جب یہ خبر ملی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تشریف لے آئے تو میرا سب سوچا ہوا ذہن سے نکل گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ میں جھوٹی بات بتا کر نجات نہ پاؤں گا، لہٰذا میں نے سچ بولنے کی ٹھان لی۔
… تبوک کا یہ واقعہ، جو باقاعدہ کسی جنگ کے بغیر انجام پایا، متعدد قسم کے حالات اور خصوصیات کا حامل رہا، ایک تو یہ کہ بڑے سخت گرمی کے موسم میں پیش آیا، جس میں شہر کے باغات کے اندر کے خوش گوار موسم اور گھروں کے آرام سے نکل کر خشک او رگرم صحراؤں سے گزرنا تھا اور مدینہ منورہ کے باغات کے پھلنے کا وقت بھی یہی تھا، ایک طرف ان کی دیکھ بھال اور سب چھوڑ کر طویل فاصلہ کی مہم پر جانا بڑے ایمان کی بات تھی، وہ لوگ جواپنے کو ظاہراً مسلمان پیش کرتے تھے اور اپنے کفر کو چھپاتے تھے ، ان کا نفاق الله تعالیٰ نے خاص طور پر اس وقت کھلے طور پر ظاہر فرما دیا کہ انہوں نے مختلف بہانے کرکے ساتھ جانے سے اپنے کو بچا لیا، چناں چہ قرآن مجید میں اس موقع کے سلسلہ میں جب آیات نازل ہوئیں تو ان کی کھلیہوئی مذمت کی گئی ان کے ساتھ ساتھ چند افراد ایسے بھی تھے کہ جو منافق تونہ تھے، لیکن بعض موانع کی وجہ سے بلاکسی برے ارادہ کے جانے سے رہ گئے تھے ، ان کا امتحان دوسرے طریقہ سے ہوا، یعنی شہر کے اندران کے بائی کاٹ کا حکم دیا گیا اور وہ لوگ پورے چالیس روز اپنے ساتھیوں ، عزیزوں وغیرہ سے ربط وتعلق اور عورتوں سے محروم رہے اور اس درمیان میں ان کو بتایا بھی نہیں گیا کہ یہ بائی کاٹ کب تک کے لیے ہے ، چناں چہ وہ نفسیاتی کرب میں بھی رہے۔
دراصل حضور صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ان کے ایمان ویقین کو مضبوط کرنے کے لیے اس طرح کے امتحانات سے گزارتے تھے، ان سے گزر جانے والا اس خالص سونے کی طرح نکھر جاتا ہے جو کہ بھٹی میں سے گز رکر خالص بنتا ہے ، اس طرح کا واقعہ حضرت کعب بن مالک کی ہی زبان سے سنیے۔
”حضرت عبدالله بن کعب بن مالک سے روایت ہے ( جب کعب بن مالک نابینا ہو گئے تو یہی بیٹے ان کے ساتھ چلتے تھے) کہ میں نے کعب بن مالک سے سنا ہے ، وہ غزوہٴ تبوک میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے کا قصہ یوں بیان کرتے تھے کہ میں کسی غزوہ میں کبھی بھی غیر حاضر نہیں رہا، سوائے غزوہ تبوک اور غزوہٴ بدر کے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے غزوہٴ بدر کی عدم شرکت پر کسی پر عتاب نہیں فرمایا تھا، کیوں کہ بات یہ تھی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور مسلمان قریش کے شام سے آنے والے قافلہ ( کی رکاوٹ کرنے) کے ارادہ سے نکلے تھے ( وہ قافلہ تو آپ کے پہنچنے سے قبل آگے نکل گیا، لیکن اس بہانہ) الله تعالیٰ نے ان کو اور ان کے اصل دشمنوں کو بغیر کسی وقت مقررہ کے جمع کردیا ( اس لیے اس میں متعدد مسلمان شرکت نہ کرسکے، کیوں کہ اس موقع پرباقاعدہ جنگ کا منصوبہ نہ تھا)، البتہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بیعت عقبہ واقع منی میں بوقت حج شریک ہوا تھا، جب کہ ہم نے اسلام پر عہد کیا تھا اور میں عقبہ کی اس شرکت پر بدر کی شرکت کو ترجیح نہیں دیتا، اگر چہ بدر لوگوں میں زیادہ مشہور ہے۔
میرا قصہ یہ ہے کہ میں جب غزوہٴ تبوک میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے رہا، اس وقت مجھ میں قوت بھی تھی اور فراغت بھی ، خدا کی قسم! میرے پاس ایک وقت دو اونٹ کبھی بھی نہیں ہوئے تھے، لیکن اس غزوہ میں میرے پاس ایک چھوڑ ،دو دو سواریاں تھیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تھے لوگ سمجھتے تھے کہ آپ کواسی کی طرف جانا ہے دفعةً آپ صلی الله علیہ وسلم دوسری طرف کا رخ فرمالیتے، لیکن ( اس موقع پر) اپنی اختیا رکردہ سمت کو ظاہر کر دیا ( کہ تبوک جانا ہے ) کیوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس غزوہ کی تیاری سخت گرمی میں کی ، دور کا سفر تھا ، خشک وسخت مسافت تھی اور شمنوں کی بڑ ی تعداد کا مقابلہ، اس لیے اس مہم کا اظہار کر دیاتھا اور ان کو اس سمت کی خبر دے دی تھی، تاکہ پورے طور پر تیاری کر لیں ، اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت ہو چکی تھی اور ان کی کوئی فہرست نہ تھی، اگر آدمی چھپنا چاہتا تو چھپ جاتا اور کسی کو گمان بھی نہ ہوتا جب تک کہ اس کے بارے میں الله کی طرف سے وحی نہ نازل ہوتی۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ غزوہ اس وقت کیا جب کھجور پک گئی تھی او رسایہ بڑا خوش گوار ہو گیا تھا اور مجھے اس میں بڑا مزا آتا تھا ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے سامان سفر شروع کر دیا، میں ہر روز صبح کو اسی ارادہ سے آتا کہ میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جانے کی تیاری کروں ، لیکن یونہی پلٹ جاتا او رکوئی فیصلہ نہ کر پاتا تھا، میں اپنے دل میں کہتا تھا کہ جلدی کیا ہے ، جب بھی ارادہ کروں گا چلا جاؤں گا، کیوں کہ مجھ میں اس کی استطاعت ہے، لیکن برابر میرا یہی ( لیت ولعل ) رہا ، یہاں تک کہ سفر کی ہما ہمی اور سر گرمی پوری ہو گئی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رمسلمان بالآخر روانہ ہو گئے او راس وقت تک میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکا، صبح کو آتا او رکچھ انتظام کیے بغیر پلٹ جاتا ، روزانہ یہی کیفیت رہتی، یہاں تک کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اور مجاہدین بہت آگے تک گئے او رمیرے لیے جہاد میں شرکت کرسکنے کا وقت نکل گیا، پھر بھی میں نے ارادہ کیا کہ اب بھی چلاجاؤں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو پالوں، کاش میں یہی کرتا، لیکن یہ بھی نہ کیا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جانے کے بعد جب میں گھر سے باہر نکلتا تھا تو مجھے رنج ہوتا تھا کہ اس معاملہ میں میرے شریک حال وہی لوگ تھے جو منافق تھے یا معذور اور مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اثنائے سفر میں یاد نہیں فرمایا، تبوک پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کعب بن مالک کو کیا ہوا؟ بنی سلمہ کے ایک آدمی نے کہا یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم )ان کو اپنی ( خوش نما) چادر اور جُھک جُھک کر اس کے کناروں کو دیکھنے نے اس کی فرصت ہی کہاں دی کہ وہ ہمارے ساتھ آتے ۔ معاذ بن جبل نے کہا: بری بات تم نے کہی ، الله کی قسم یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم)! ان میں سوائے بھلائی کے ہم کچھ نہیں پاتے۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش ہو گئے اورآپ صلی الله علیہ وسلم اسی حال میں تھے کہ ایک سفید پوش آدمی گرداڑاتا ہوا آرہا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ابوخیثمہ! تووہ ابوخیثمہہی تھے، یہ وہی تھے جنہوں نے ایک صاع کھجوروں کا صدقہ کیا، تو ان پر منافقین نے طنز کیا تھا۔
حضرت کعب کہتے ہیں کہ جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تبوک سے پلٹنے والے ہیں تو مجھے فکر شروع ہو گئی او رمیں اپنے دل ہی دل میں ترکیبیں سوچنے لگا اور میں اصلاً یہ سوچتا تھا کہ میں کل آپ صلی الله علیہ وسلم کی ناراضگی سے کیسے بچوں گا، میں اپنے گھرو الوں میں ہر صاحب رائے سے اس بارے میں مدد چاہتا،جب یہ خبر ملی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تشریف لے آئے تو میرا سب سوچا ہوا ذہن سے نکل گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ میں جھوٹی بات بتا کر نجات نہ پاؤں گا، لہٰذا میں نے سچ بولنے کی ٹھان لی۔