تعبیر

Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

2 posters

    سٹرٹیجک ڈائیلاگ

    کامران خان
    کامران خان


    Posts : 323
    Join date : 17.02.2010
    Location : Abu Dhabi

    سٹرٹیجک ڈائیلاگ Empty سٹرٹیجک ڈائیلاگ

    Post by کامران خان Mon Mar 29, 2010 1:28 pm

    عامرہ احسان (سابق رکن قومی اسمبلی)..........
    پاکستان امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کو سمجھنے کیلئے لمبی چوڑی دانشوری کی ضرورت نہیں صرف علامہ اقبالؒ کی ’’ایک مکڑا اور مکھی‘‘ پڑھ لیجئے ساری کہانی طشت ازبام ہو جائیگی۔ اگرچہ علامہ نے لکھی تو بچوں کیلئے تھی لیکن پاکستانی حکمرانوں (سیاسی و عسکری) کی یہ وہ نسل ہے جو کلام اقبال سے بھی محروم رہی۔ لہٰذا وہ مومنانہ فراست و بصیرت (جس سے کفر کی چالوں کو مات دی جاتی ہے) کہاں سے آئی کہ نہ قرآن و حدیث نہ اس سے کشید کردہ حکمت و دانائی پر مبنی کلام اقبال نہ گلستان، بوستان! چلئے ہم تو یہ اسباق تازہ کر ہی سکتے ہیں کہ یکایک ہیلری کلنٹن کو ہماری بند بجلی اور بے روزگار نوجوانوں کا غم کیسے کھانے لگا۔
    امریکہ کہہ رہا ہے ہم پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے حالانکہ اسے نہ چھوڑنے والے کمبل کو اب ہم ہاتھ جوڑ کر یہی کہنا چاہتے ہیں۔ خود انکی اپنی زبان میں (Kindly Leave us alone) برائے مہربانی ہمارا پیچھا چھوڑئیے‘‘ ہمیں تنہا چھوڑئیے یا بر زبان پنجابی ’’جان چھڈ‘ مگروں لتھ‘‘ ۔۔ مکھی مکڑے کی کہانی میں مکھن لگا لگا کر مکھی کے حواس مکڑے نے جس طرح گم کرکے اسے اپنے جال میں پھانسا۔ آج ہم دہشت گردی کی جنگ کا یہ ترنوالہ نہ بنے ہوتے اگر استادوں یا ماؤں نے یہ پڑھا دیا ہوتا۔ ابتداً تو مکھی چالیں پہچان کر کہہ رہی تھی مکڑے کی دعوت رد کرتے ہوئے …؎
    اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
    جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا
    اور یہ کہ …؎
    ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
    سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا
    لیکن پھر خوشامد نے سیانی مکھی کی عقل پر وہ پردے ڈالے کہ ریشہ خطمی ہوگئی۔ یہاں آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں، والی بی بی کلنٹن پاکستان کو سبز باغ دکھانے میں طاق ہیں۔ بوسنیا فیم ہالبروک حقیقی مکڑے کی طرح پھانسنے کے گر استعمال کر رہے ہیں اور اس کہانی کا انجام تو عبرت ناک ہے اگر ظاہری چکا چوند نظر خرہ کر دے …؎
    بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
    آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا
    کیا امریکہ 8 سالوں میں پاکستان کے جان و مال عزت و آبرو (ڈاکٹر عافیہ) سے جی بھر کر کھیل نہیں چکا؟ اب کیا رہ گیا ہے جس کا مزید سودا چُکانے ہم چلے ہیں۔ تیئس مارچ کے اعزازات کی فہرست دیکھئے… کاش یہ سارے اعزاز امریکی سپاہیوں‘ افسروں کو ملے ہوتے اور ایک بھی پاکستانی ماں کا بیٹا اس جنگ کی بھینٹ نہ چڑھتا ۔۔ گورے قبرستان آباد ہوئے ہوتے… پاکستان کے طول و عرض میں امریکہ کے مجسمۂ آزادی کی دیوی کے قدموں میں یہ قیمتی جانیں یوں قربان نہ ہوئی ہوتیں ذرا سوچئے امریکی سپاہی کی قیمت اور اسکے برعکس اس جنگ میں جان دیتے پاکستانی کا باہم موازنہ کیا ہے؟ امریکی مرتا ہے تو اسکے پیچھے تڑپنے بلکنے والا وہ لمباچوڑا خاندان نہیں ہوتا …کسی دوسرے شہر میں بستی ماں کسی اولڈ ہوم میں اولاد کی دید سے محروم جسے صرف مدرز ڈے پر پھول بھیجے جاتے ہیں باپ اول تو نامعلوم… اگر معلوم تو وہ کسی دوسری تیسری بیوی‘ گرل فرینڈ کا اسیر‘ بچے پیدا کر کے بھول بیٹھا۔ نہ دادی نانی‘ نہ خالہ پھوپھی‘ نہ چچا ماموں۔ بیوی بچے ہوں تو کیا کہنے ورنہ پیچھے وقتی آہ بھرنے کو گرل فرینڈ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ Gay بوائے فرینڈ ہو جو اسکے مارے جانے پر اس کی بیوہ قرار پائے اور پنشن کلیم کرے۔ اسکے برعکس ہمارے ہاں کسی مسلمان کسی پاکستانی کا مارا جانا پورے ملک کے طول و عرض میں پھیلے باہمی محبتوں میں گُندھے خاندان‘ برادری تک کو ہلا مارتا ہے۔ اور پھر امریکیوں کا سوال تو صرف اس دنیا ہی کا سوال ہے جبکہ ہمارے لئے بہت بڑا سوال دنیا کے بعد آخرت کا لامنتہا زندگی کا سوال ہے۔ اگر موت آنی ہی ہے تو شہادت ہو ۔۔ کفر کیخلاف لڑتے ہوئے، پھر سارے غم ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں یہ کہہ کر زخموں پر مرہم رکھا جاتا ہے… جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی …ع
    حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
    لیکن افواج پاکستان کو اس عالمی صلیبی جنگ کا لقمہ بنانا کیونکر گوارا کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ ڈائیلاگ نئے محاذ کھول کر انہیں جھونکتے چلے جانے کا نیا بہانہ فراہم نہ کریں۔ جنوبی پنجاب‘ شمالی وزیرستان میں آپریشن‘ افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد طالبان سے نمٹنے کو فوج کا استعمال کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ خطے سے نکل جائیگا ہمیں افغانستان کی ہمسائیگی میں رہنا ہے۔ کیا ہم پہلے ہی انہیں ناقابل تلافی ناقابل معافی نقصان نہیں پہنچا چکے؟
    امریکہ ہماری ترجیحات لمحہ بھر کو باور کرنے کیلئے تیار نہیں‘ ابتداً دوٹوک کہا ہے بعدازاں وعدہ فردا پر ٹالا جائیگا۔ پانی کیلئے امریکہ بھارت پر دباؤ نہیں ڈال سکتا‘ ان مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر کوئی بات نہیں ہو گی‘ امریکہ پاکستان کو بھارت پر ترجیح نہیں دیگا اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مسئلہ اٹھانے کا تو یہ فورم ہی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ہماری بے بہا جانوں کا خون بہا بھی وعدہ فردا ہی رہے گا۔ افغانستان سے نکلنے کیلئے امریکہ‘ نیٹو اپنی عزت اور جان و مال کی سلامتی کی قیمت پاکستان سے وصول کرنے چلے ہیں۔ اس ڈائیلاگ کا درپردہ حاصل کلام توہمیشہ کی طرح ’’ڈومور‘ اینڈ مور‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو!
    توجہات کا مرکز عسکری قیادت ہے۔ جمہوریت بے چاری اپنا سا منہ لیکر رہ گئی۔ پارلیمنٹ اور جمہوری حکومت کی اوقات ہی کیا چھوڑی بجائے ایجنڈہ پارلیمنٹ سے منظور کروانے کے‘ فیصلے کسی اور سطح پر ہوئے اور ہونگے۔
    اب امریکہ کیساتھ ڈائیلاگ کیلئے عسکری قیادت کا مرکزی کردار سارے راز کھولے دیتا ہے۔ آپریشن در آپریشن کے نئے محاذ سونپنے کیلئے یہ سارا میلہ رچایا گیا ہے اندر کی یہ بات جلد یا بدیر کھل جائیگی ادھر ملک کا حال دیکھئے۔ پانی کی صورتحال ایسی ہے کہ خشک دریاؤں‘ نہروں‘ ندی نالوں میں اُڑتی دھول دیکھ کر زبان پیاس اور خوف سے باہر کو آنے لگتی ہے۔
    زرعی معیشت کی تباہی‘ بجلی کی عدم دستیابی‘ کمر توڑ گرانی کے بیج‘ سسکتے عوام احتجاج کریں سڑکوں پر نکلیں تو فائرنگ‘ ڈنڈے‘ آنسو گیس‘ جیلوں کا سامنا کریں بصورت دیگر میلوں پیدل چل کر دفاتر، سکول کالج پہنچیں کیونکہ ٹرا نسپورٹ کے کرائے قوت برداشت سے باہر ہو چکے۔ بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرنیوالے سیاسی فوجی حکمرانوں کو کیا غم جن کی کروڑوں کی گاڑیوں کے چار ٹائر بدلنے پر سرکاری 16 لاکھ کا خرچ اٹھتا ہے ایسے میں ایک بدترین بدخواہ سے سٹرٹیجک ڈائیلاگ انہی کی سٹرٹیجی کے تابع چل رہا ہے۔ دوسری جانب ہماری جان کا لاگو بھارت ہے تو اسے کلچر کی جپھیاں ماری جا رہی ہیں۔ 25 نچئیے گوئیے تحریک نسواں کلچرل ایکشن گروپ کے تحت چندی گڑھ اور دہلی میں ناچ گا کر امن قائم کر رہے ہیں‘ ہمیں بوند بوند ترسانے والے ہماری معیشت کی بربادی پر مہر ثبت کرنیوالے بھارت کے ساتھ ’’امن، امن‘‘ کھیلا جا رہا ہے۔ یہ جو ہر طرف Peace کا ڈھنڈورا رہتا ہے۔ ہماری انگریزی کمزور ہے مسئلہ ہجوں کا ہے وہ تو پیس کی بات کرتے ہیں تو وہ Piece ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی خواہش لئے وہ دانت پیس پیس کر پیس ڈالنے کا ڈول ڈالتے ہیں۔ ہمارے ہاں سے خواہ امریکہ ہو یا بھارت اس سے حماقت کی حدوں کو چھوتی ہوئی مسکراہٹوں کیساتھ peace کی میٹھی میٹھی باتیں بگھاری جاتی ہیں۔ بھارت میں ناچتے ہوئے تھیٹر اور فن کی ترویج اور ناچ گا کر امن کی خدمت کرنیوالے ان وفود سے کوئی یہ پوچھے کہ پاکستان بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ لاکھوں جانوں کی قربانی، عصمتوں کی بربادی، سکھوں کے حوالے جوان بیٹیاں کر کے خون کے دریا کیا اس دن کیلئے پار کر کے پاکستان بسایا تھا کہ دھول ریت اڑاتے دریاؤں کے علی الرغم بھنگڑے ڈالے جا سکیں؟ امریکہ کو افغانستان کی دلدل سے نکالے کیلئے ہم یہ ملک اور اسکے تمام تر ایمانی مادی اولادی اثاثے بھینٹ چڑھا دیں؟ دو دھاری تلوار‘ اِدھر بھارت اُدھر امریکہ ہمیں ذبح کرنے کو ہیں۔ کیا سیاسی‘ فوجی حکمران اور تمام جماعتیں مل کر اپنے عوام کو یوں ارزاں بلکہ بے دام فروخت کردینگے۔ جب تک ہماری آنکھ پیٹ کی نگاہ سے دنیا کو دیکھتی رہے گی ہماری حالت بدلنے کا دور دور کوئی امکان نہیں۔ اب تو وہ پیٹ بھی معدودے چند مٹھی بھر کے سوا سب ہی کا داؤ پر لگ چکا ہے۔ انقلاب تو آئیگا … پیالہ لبالب بھر چکا ہے۔ انتخاب ہمارا ہے۔ انقلاب برائے پیٹ/ شکم یا نظریے کی بنیاد پر جینا مرنا؟ پاکستانی پیٹ کیلئے نہیں نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ ٹھیٹھ کلمے کی پکار تھی۔ دھوکہ خود کو بھی نہ دیجئے اور قوم کو بھی نہیں۔ تھیٹروں، فلموں سیاسی گدیوں کی بنیاد پر پاکستان کی پکار دی جاتی تو کوئی اپنی چھنگلیا کا بوند بھر خون دینا بھی گوارا نہ کرتا۔ جہاں سے بھولے تھے وہیں لوٹ چلیں، دو قومی نظریہ کلمہ ہی ہماری بقا کا ضامن ہے۔ پہلے ’’لا‘‘ کہنا ہوگا… امریکہ کو‘ بھارت کو‘ ایک مکمل یوٹرن… اللہ کی طرف …جس کے ہم ہیں اور جس کی طرف ہمیں لوٹنا ہے۔ اللہ سے سٹرٹیجک ڈائیلاگ بحال کرنا ہوگا۔ رات وہی پرانی ہے…؎
    وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
    ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
    تحریک پاکستان کی جگہ تحریک نسواں کلچرل گروپ نے لے لی۔ 2001ء کے بعد کے پاکستان میں روشن خیالی کے مذموم پردے میں اسلام ہدف بن گیا۔ ایک یہ تحریک ہے ناچنے گانے کی‘ دوسری تحریک عقوبت خانوں میں محبوس ایمان اسلام کی قیمت چکا رہی ہے۔ باپردہ خواتین کے گھروں پر جاسوس متعین ہیں‘ سرکاری پہرے دار ہماری ’’ملک دشمنی‘‘ سے قوم کو بچانے کیلئے خواتین پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں! امریکہ بھارت کے ساتھ دوستی محبت کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ بھنگڑوں تھیٹروں کا بول بالا ہے۔ قرآن کی تدریس کی مجالس پر خشگمیں نگاہیں نگران ہیں۔ علماء ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ ہیں۔
    بہ زبان حضرت نوح علیہ السلام۔ ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے اللہ کیلئے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ (سورہ نوح۔13) ۔۔ اس سے بغاوت کرتے‘ عہد شکنی کرتے تمہیں اندیشہ نہیں ہوتا کہ وہ تمہاری گرفت نہ کرے؟ امریکہ کے وقار کا خوف تولرزاں رکھتا ہے اور اللہ ہی سے بے خوف ہو؟
    اپنی تقدیر عاقبت نااندیش‘ خود پرست‘ ملک لوٹ کر بھاگ جانے والوں کے حوالے نہ کیجئے…ع
    اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
    قرآن‘ سٹرٹیجک ڈائیلاگ ہے ۔۔ اللہ کا اپنے بندے سے۔ اس کی طرف لوٹیئے… نئی زندگی پائیے۔
    __________________
    [center]
    أضواء
    أضواء
    Administrater
    Administrater


    Posts : 762
    Join date : 14.01.2010
    Location : دمــام (سعوديــه )

    سٹرٹیجک ڈائیلاگ Empty Re: سٹرٹیجک ڈائیلاگ

    Post by أضواء Wed May 05, 2010 9:21 am

    بهت خوب كامران

    thanks

      Current date/time is Mon May 20, 2024 1:40 am