آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اُچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اُتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تری بخشش تیری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کہ بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا