کبھی جو عہدِ وفا میری جاں تیرے میرے درمیان ٹوٹے
میں چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے زمیں پہ یہ آسمان ٹوٹے
تیری جدائی میں حوصلوں کی شکست دل پر عذاب ٹھہری
کہ جیسے منہ زور زلزلوں کی دھمک سے کوئی چٹان ٹوٹے
اسے یقیں تھا کہ اس کو مرنا ہے پھر بھی خواہش تھی اس کے دل میں
کہ تیر چلنے سے پیشتر دستِ دشمناں میں کمان ٹوٹے
وہ سنگ ہے تو گرے بھی دل پر وہ آئینہ ہے تو چبھ ہی جائے
کہیں تو میرا یقین بکھرے کہیں تو میرا گمان ٹوٹے
اجاڑ بن کی اداس رت میں غزل تو محسن نے چھیڑ دی ہے
کسے خبر ہے کہ کس کے معصوم دل پہ اب کہ یہ تان ٹوٹے
میں چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے زمیں پہ یہ آسمان ٹوٹے
تیری جدائی میں حوصلوں کی شکست دل پر عذاب ٹھہری
کہ جیسے منہ زور زلزلوں کی دھمک سے کوئی چٹان ٹوٹے
اسے یقیں تھا کہ اس کو مرنا ہے پھر بھی خواہش تھی اس کے دل میں
کہ تیر چلنے سے پیشتر دستِ دشمناں میں کمان ٹوٹے
وہ سنگ ہے تو گرے بھی دل پر وہ آئینہ ہے تو چبھ ہی جائے
کہیں تو میرا یقین بکھرے کہیں تو میرا گمان ٹوٹے
اجاڑ بن کی اداس رت میں غزل تو محسن نے چھیڑ دی ہے
کسے خبر ہے کہ کس کے معصوم دل پہ اب کہ یہ تان ٹوٹے