علامہ محمد اقبال کی طویل نظم طلوع اسلام سے انتخاب۔
ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے
سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک!
ترے بازو میں ہے پرواز شاہین کہستانی
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے
یقیں افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے
تو راز کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے
سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک!
ترے بازو میں ہے پرواز شاہین کہستانی
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے
یقیں افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے
تو راز کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا