تیرے بغیر یہ اب زندگی کہاں گزرے
قدم قدم پہ تیرے ساتھ کا گماں گزرے
یہ دن جو دھیرے سے پھسلا تو شام کا منظر
تیرے بغیر اُداسی کے درمیاں گزرے
وہ اشک ہوں کہ سرِ راہ گِر گیا تھا کبھی
اُٹھا سکا نہ کوئی کتنے کارواں گزرے
میں خشک ہو کہ بِکھرتا رہا ہوں پیروں میں
بہت زمانہ ہُوا مجھ پہ کشتیاں گزرے
تیرے بدن کا آلاؤ ہو میری سانسوں میں
کبھی وہ لمحہ بھی اک بار جانِ جان گزرے
یہ بات اب بھی نہیں ہے کسی سے کہنے کی
تمام سجدے تیرے در سے رائیگاں گزرے