قُران سیکھنے سِکھانے ، پڑھنے پڑھانے والوں کی اقسام :::::
بسم اللہ وحدہُ و الصلاۃ و السلام علی مَن لانبی بعدہ ُ
الحمد للہ کہ دین سے دوری اور نئے نئے نظریات کا شکار ہونے کے باوجود مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اللہ سبحانہ و تعالی کی کتاب کو سیکھتے سکھاتے اور پڑھتے پڑھاتے ہوئے دکھائی دیتی ہے ، ہمیں اپنے ہر کلمہ گو بھائی اور بہن کے بارے میں یہ ہی حسن ظن رکھنا چاہیے کہ وہ اللہ کا دین سیکھنے اور حق جاننے کے لیے اس پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے ، اللہ کے کلام کا مطالعہ یا قرأت کرتا ہے ،
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے قُران سیکھنے ، سکھانے ، پڑھنے پڑھانے میں اپنی نیت کی جانچ بھی کرتے رہنا چاہیے ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی اپنے کسی عمل کے بارے میں اپنی نیت و ارادے کو اپنے تئیں درست سمجھ رہا ہو لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہو ، قُران سیکھنے پڑھنے کے بارے میں اس کا اندازہ کرنے کے لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کچھ کسوٹیاں بتائی ہیں ، آئیے ان کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر جانچتے ہیں کہ ہم میں سے کس کا قران سیکھنا سکھانا ، پڑھنا پرھانا کون سے زُمرے میں آتا ہے ، اور اس کی بنیاد پر ہم خود کس زُمرے میں،
::: قُران سیکھنے والوں کی اقسام :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے ( تعلموا القرآن وسلوا بہ الجنۃ قبل أن یتعلم قوم یسألون بہ الدنیا فإن القرآن یتعلمہ ثلاثۃ رجل یباہی بہ ورجل یستأکل بہ ورجل یقرأ لِلَّہِ عز وجل ::: قُران سیکھو اور اس کے ذریعے جنّت کا سوال کرو ، اس سے پہلے کہ وہ لوگ قُران سیکھیں جو قُران کے ذریعے دُنیا کا سوال کریں گے ، بے شک قُران تین قِسم کے لوگ سیکھتے ہیں (١) وہ جو اپنے قُران سیکھنے کو دوسرے کے سامنے فخر کرنے کا ذریعہ بنائے اور (٢) وہ جو قُران کے ذریعے کھائے اور (٣) وہ جو قُران (صِرف ) اللہ کے لیے پڑھے ) سلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث ٢٥٨،
اس مندرجہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ تعلیم عطاء فرمائی کہ قُران صرف آخرت کی خیر اور اللہ کے قُرب کے لیے سیکھا جانا چاہیے ، اس کے علاوہ قران سیکھنا دُنیاوی فوائد کا باعث تو ہو سکتا ہے لیکن آخرت کے نقصان کا موجب بھی ہو گا ، ان معاملات کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل فرمان مُبارک میں ہے ،
::: قُران پڑھنے والوں کی اقسام :::
بشیر بن ابی عمر الخولانی کا کہنا ہے کہ انہیں الولید بن قیس نے بتایا کہ انہوں نے ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ ( یَکُونُ خَلفٌ مِن بَعدِ سِتِّینَ سَنَۃً ''' أَضَاعُوا الصَّلاَۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ فَسَوفَ یَلقَونَ غَیًّا ''' ثُمَّ یَکُونُ خَلفٌ یقرؤون القُرآنَ لاَ یَعدُو تَرَاقِیَہُم ، وَیَقرَأُ القُرآنَ ثَلاَثَۃٌ (١) مُؤمِنٌ وَ (٢) مُنَافِقٌ وَ (٣) فَاجِرٌ ::: ساٹھ سال بعد ایسے لوگ آئیں گے جو''' نماز ضائع کریں گے اور خواہشات کی پیروی کریں گے پس جلد ہی وہ لوگ غیا (جہنم کی ایک وادی ) میں پہنچیں گے ، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قُران پڑھیں گے (لیکن ) قُران ان کے گلوں سے آگے نہیں جائے گا ، اور قُران تین قسم کے لوگ پڑھتے ہیں (١) ایمان والا اور (٢) مُنافق (٣) فاجر )
بشیر الخولانی کہتے ہیں کہ میں نے الولید سے پوچھا ''' یہ تینوں کیا ہیں ؟ ''' تو الولید نے بتایا ''' منافق وہ ہے جو قُران کا منکر ہو (یعنی دِل سے قُران پر ایمان نہ رکھتا ہو صرف دکھاوے کے لیے پڑھتا ہو ) اور فاجر وہ ہے جو قُران کے ذریعے کھاتا ہو (یعنی قُران کو کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہو ) اور مؤمن وہ ہے جو قُران پر اِیمان رکھتا ہو ''' المستدرک الحاکم /حدیث ٣٤١٦ /کتاب التفسیر /باب تفسیر سورۃ مریم ، صحیح ابن حبان / حدیث ٧٥٥ /کتاب الرقاق /باب مُسند احمد / حدیث ١١٣٥٨،یا،١١٣٩٩ /مسند ابی سعید الخُدری، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث ٣٠٤٣ ،
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین مُبارک کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ :::
قران کا ہر قاری اللہ کی رضا کے لیے قران نہیں پڑھ رہا ہوتا اور نہ ہی اللہ کی رضا کے لیے سیکھ رہا ہوتا ہے ،
بلکہ کوئی تو صرف دُنیا میں اپنی قُران خوانی کی بنا پر اِترانے اور فخر کرنے کے لیے قُران پڑھتا ہے ، جبکہ اُس کے دِل میں قُران پر اِیمان نہیں ہوتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مُنافق قرار دیا ہے ، اور اُس کا یہ نفاق اُس کے اقوال اور خاص طور پر اُس کے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے جس کی کچھ وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس فرمان میں ملتی ہے ( ألا إِنّی أُوتِیتُ الکِتَابَ وَمِثلَہُ مَعہ ألا إِنّی أُوتِیتُ القُرآنَ وَمِثلَہُ مَعہ ألا یُوشِکُ رَجُلٌ شَبعَاناً علی أَرِیکَتِہِ یقول : عَلَیکُم بِالقُرآنِ فما وَجَدتُم فیہ من حَلاَلٍ فَأَحِلُّوہُ وما وَجَدتُم فیہ مِن حَرَامٍ فَحَرِّمُوہُ ::: خبردار (یاد رکھو ) کہ بے شک مجھے کتاب ( قُران ) دی گئی اور اُس کے ساتھ اُس جیسا اور بھی دیا گیا ، خبردار (یاد رکھو ) قریب ہے کہ (کوئی)مال داری ، عیش و آرام اور معاشرتی حیثیت کے خُمار میں مخمور شخص اپنی پر ۤآسائش نشست گاہ میں ٹیک لگائے یہ کہے گا : تُم لوگ (صِرف) قُران پر عمل کرو ، پس جو قُران میں حلال ملے اُسے حلال سمجھو اور جو قُران میں حرام ملے اُسے حرام سمجھو) سنن ابو داود /حدیث ٤٥٩١/ کتاب السُنّۃ /باب ٥ ، مُسنداحمد ، سنن البیہقی الکبری ، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دیا ،
( اس موضوع کی وضاحت میں اور کئی صحیح روایات موجود ہیں ، ان شاء اللہ ایک الگ مستقل موضوع کے طور پر ان کا ذکر کروں گا ) تو جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے نظر آئیں گے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ان فرامین کی روشنی میں ایسے لوگوں کی قُران خوانی و قُران کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ اللہ کی رضا کے لیے نہیں اور نہ ہی اللہ کی رضا کا سبب ہو سکتا ہے کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنّت مُبارکہ کو نظر انداز کرتے ہیں، جی ہاں لوگوں میں اپنی قُران خوانی اور ُقُران فہمی کا پر فخر کرنے کے لیے قُران پڑھنے کا منظر دِکھایا جاتا ہے ،
قُران پڑھنے والوں کی دوسری قِسم میں وہ لوگ ہیں جو قُران پڑھا کر ، سیکھا کر ، اُسکو آڑ بنا کر اُسکے ذریعے دُنیا کا مال اور دیگر فوائد فوائد حاصل کرتے ہیں ،
اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو قُران کو صِرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے پڑھتے ہیں ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو پہلی دو اقسام کے قُران پڑھنے والوں کی پہچان عطا فرمائے اور اُن میں ہونے سے اور اُنکے تابع فرمان ہونے سے بچنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے اور اپنی رحمت خاص سے تیسری قسم میں سے بنائے ، جو اِیمان کے ساتھ قُران کو اللہ کی رضا کے لیے پڑھتے اور سیکھتے ہیں ۔ و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
بسم اللہ وحدہُ و الصلاۃ و السلام علی مَن لانبی بعدہ ُ
الحمد للہ کہ دین سے دوری اور نئے نئے نظریات کا شکار ہونے کے باوجود مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اللہ سبحانہ و تعالی کی کتاب کو سیکھتے سکھاتے اور پڑھتے پڑھاتے ہوئے دکھائی دیتی ہے ، ہمیں اپنے ہر کلمہ گو بھائی اور بہن کے بارے میں یہ ہی حسن ظن رکھنا چاہیے کہ وہ اللہ کا دین سیکھنے اور حق جاننے کے لیے اس پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے ، اللہ کے کلام کا مطالعہ یا قرأت کرتا ہے ،
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے قُران سیکھنے ، سکھانے ، پڑھنے پڑھانے میں اپنی نیت کی جانچ بھی کرتے رہنا چاہیے ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی اپنے کسی عمل کے بارے میں اپنی نیت و ارادے کو اپنے تئیں درست سمجھ رہا ہو لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہو ، قُران سیکھنے پڑھنے کے بارے میں اس کا اندازہ کرنے کے لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کچھ کسوٹیاں بتائی ہیں ، آئیے ان کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر جانچتے ہیں کہ ہم میں سے کس کا قران سیکھنا سکھانا ، پڑھنا پرھانا کون سے زُمرے میں آتا ہے ، اور اس کی بنیاد پر ہم خود کس زُمرے میں،
::: قُران سیکھنے والوں کی اقسام :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے ( تعلموا القرآن وسلوا بہ الجنۃ قبل أن یتعلم قوم یسألون بہ الدنیا فإن القرآن یتعلمہ ثلاثۃ رجل یباہی بہ ورجل یستأکل بہ ورجل یقرأ لِلَّہِ عز وجل ::: قُران سیکھو اور اس کے ذریعے جنّت کا سوال کرو ، اس سے پہلے کہ وہ لوگ قُران سیکھیں جو قُران کے ذریعے دُنیا کا سوال کریں گے ، بے شک قُران تین قِسم کے لوگ سیکھتے ہیں (١) وہ جو اپنے قُران سیکھنے کو دوسرے کے سامنے فخر کرنے کا ذریعہ بنائے اور (٢) وہ جو قُران کے ذریعے کھائے اور (٣) وہ جو قُران (صِرف ) اللہ کے لیے پڑھے ) سلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث ٢٥٨،
اس مندرجہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ تعلیم عطاء فرمائی کہ قُران صرف آخرت کی خیر اور اللہ کے قُرب کے لیے سیکھا جانا چاہیے ، اس کے علاوہ قران سیکھنا دُنیاوی فوائد کا باعث تو ہو سکتا ہے لیکن آخرت کے نقصان کا موجب بھی ہو گا ، ان معاملات کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل فرمان مُبارک میں ہے ،
::: قُران پڑھنے والوں کی اقسام :::
بشیر بن ابی عمر الخولانی کا کہنا ہے کہ انہیں الولید بن قیس نے بتایا کہ انہوں نے ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ ( یَکُونُ خَلفٌ مِن بَعدِ سِتِّینَ سَنَۃً ''' أَضَاعُوا الصَّلاَۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ فَسَوفَ یَلقَونَ غَیًّا ''' ثُمَّ یَکُونُ خَلفٌ یقرؤون القُرآنَ لاَ یَعدُو تَرَاقِیَہُم ، وَیَقرَأُ القُرآنَ ثَلاَثَۃٌ (١) مُؤمِنٌ وَ (٢) مُنَافِقٌ وَ (٣) فَاجِرٌ ::: ساٹھ سال بعد ایسے لوگ آئیں گے جو''' نماز ضائع کریں گے اور خواہشات کی پیروی کریں گے پس جلد ہی وہ لوگ غیا (جہنم کی ایک وادی ) میں پہنچیں گے ، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قُران پڑھیں گے (لیکن ) قُران ان کے گلوں سے آگے نہیں جائے گا ، اور قُران تین قسم کے لوگ پڑھتے ہیں (١) ایمان والا اور (٢) مُنافق (٣) فاجر )
بشیر الخولانی کہتے ہیں کہ میں نے الولید سے پوچھا ''' یہ تینوں کیا ہیں ؟ ''' تو الولید نے بتایا ''' منافق وہ ہے جو قُران کا منکر ہو (یعنی دِل سے قُران پر ایمان نہ رکھتا ہو صرف دکھاوے کے لیے پڑھتا ہو ) اور فاجر وہ ہے جو قُران کے ذریعے کھاتا ہو (یعنی قُران کو کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہو ) اور مؤمن وہ ہے جو قُران پر اِیمان رکھتا ہو ''' المستدرک الحاکم /حدیث ٣٤١٦ /کتاب التفسیر /باب تفسیر سورۃ مریم ، صحیح ابن حبان / حدیث ٧٥٥ /کتاب الرقاق /باب مُسند احمد / حدیث ١١٣٥٨،یا،١١٣٩٩ /مسند ابی سعید الخُدری، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث ٣٠٤٣ ،
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین مُبارک کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ :::
قران کا ہر قاری اللہ کی رضا کے لیے قران نہیں پڑھ رہا ہوتا اور نہ ہی اللہ کی رضا کے لیے سیکھ رہا ہوتا ہے ،
بلکہ کوئی تو صرف دُنیا میں اپنی قُران خوانی کی بنا پر اِترانے اور فخر کرنے کے لیے قُران پڑھتا ہے ، جبکہ اُس کے دِل میں قُران پر اِیمان نہیں ہوتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مُنافق قرار دیا ہے ، اور اُس کا یہ نفاق اُس کے اقوال اور خاص طور پر اُس کے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے جس کی کچھ وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس فرمان میں ملتی ہے ( ألا إِنّی أُوتِیتُ الکِتَابَ وَمِثلَہُ مَعہ ألا إِنّی أُوتِیتُ القُرآنَ وَمِثلَہُ مَعہ ألا یُوشِکُ رَجُلٌ شَبعَاناً علی أَرِیکَتِہِ یقول : عَلَیکُم بِالقُرآنِ فما وَجَدتُم فیہ من حَلاَلٍ فَأَحِلُّوہُ وما وَجَدتُم فیہ مِن حَرَامٍ فَحَرِّمُوہُ ::: خبردار (یاد رکھو ) کہ بے شک مجھے کتاب ( قُران ) دی گئی اور اُس کے ساتھ اُس جیسا اور بھی دیا گیا ، خبردار (یاد رکھو ) قریب ہے کہ (کوئی)مال داری ، عیش و آرام اور معاشرتی حیثیت کے خُمار میں مخمور شخص اپنی پر ۤآسائش نشست گاہ میں ٹیک لگائے یہ کہے گا : تُم لوگ (صِرف) قُران پر عمل کرو ، پس جو قُران میں حلال ملے اُسے حلال سمجھو اور جو قُران میں حرام ملے اُسے حرام سمجھو) سنن ابو داود /حدیث ٤٥٩١/ کتاب السُنّۃ /باب ٥ ، مُسنداحمد ، سنن البیہقی الکبری ، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دیا ،
( اس موضوع کی وضاحت میں اور کئی صحیح روایات موجود ہیں ، ان شاء اللہ ایک الگ مستقل موضوع کے طور پر ان کا ذکر کروں گا ) تو جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے نظر آئیں گے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ان فرامین کی روشنی میں ایسے لوگوں کی قُران خوانی و قُران کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ اللہ کی رضا کے لیے نہیں اور نہ ہی اللہ کی رضا کا سبب ہو سکتا ہے کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنّت مُبارکہ کو نظر انداز کرتے ہیں، جی ہاں لوگوں میں اپنی قُران خوانی اور ُقُران فہمی کا پر فخر کرنے کے لیے قُران پڑھنے کا منظر دِکھایا جاتا ہے ،
قُران پڑھنے والوں کی دوسری قِسم میں وہ لوگ ہیں جو قُران پڑھا کر ، سیکھا کر ، اُسکو آڑ بنا کر اُسکے ذریعے دُنیا کا مال اور دیگر فوائد فوائد حاصل کرتے ہیں ،
اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو قُران کو صِرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے پڑھتے ہیں ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو پہلی دو اقسام کے قُران پڑھنے والوں کی پہچان عطا فرمائے اور اُن میں ہونے سے اور اُنکے تابع فرمان ہونے سے بچنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے اور اپنی رحمت خاص سے تیسری قسم میں سے بنائے ، جو اِیمان کے ساتھ قُران کو اللہ کی رضا کے لیے پڑھتے اور سیکھتے ہیں ۔ و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔