شوقِ رقص سے جب تک اُنگلیاں نہیں کُھلتیں
پاؤں سے ہواؤں کے، بیڑیاں نہیں کُھلتیں
پیڑ کو دُعا دے کر کٹ گئی بہاروں سے
پُھول اِتنے بڑھ آئے، کھڑکیاں نہیں کُھلتیں
پُھول بن کی سیروں میں اور کون شامل تھا
شوخئیِ صبا سے تو بالیاں نہیں کُھلتیں
حُسن کو سمجھنے کو عُمر چاہیے، جاناں!
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کُھلتیں
کوئی موجہِ شیریں چُوم کر جگائے گی
سُورجوں کے نیزوں سے سِیپیاں نہیں کُھلتیں
ماں سے کیا کہیں گی دُکھ ہجر کا کہ خود پر بھی
اِتنی چھوٹی عُمروں کی بچیاں نہیں کُھلتیں
شاخ شاخ سرگرداں، کس کی جستجو میں ہیں
کون سے سفر میں ہیں، تتلیاں نہیں کُھلتیں
آدھی رات کی چُپ میں کس کی چاپ اُبھرتی ہے
چھت پہ کون آتا ہے، سیڑھیاں نہیں کُھلتیں
پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر
کیا قیامتیں گزریں، بستیاں نہیں کُھلتیں
پاؤں سے ہواؤں کے، بیڑیاں نہیں کُھلتیں
پیڑ کو دُعا دے کر کٹ گئی بہاروں سے
پُھول اِتنے بڑھ آئے، کھڑکیاں نہیں کُھلتیں
پُھول بن کی سیروں میں اور کون شامل تھا
شوخئیِ صبا سے تو بالیاں نہیں کُھلتیں
حُسن کو سمجھنے کو عُمر چاہیے، جاناں!
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کُھلتیں
کوئی موجہِ شیریں چُوم کر جگائے گی
سُورجوں کے نیزوں سے سِیپیاں نہیں کُھلتیں
ماں سے کیا کہیں گی دُکھ ہجر کا کہ خود پر بھی
اِتنی چھوٹی عُمروں کی بچیاں نہیں کُھلتیں
شاخ شاخ سرگرداں، کس کی جستجو میں ہیں
کون سے سفر میں ہیں، تتلیاں نہیں کُھلتیں
آدھی رات کی چُپ میں کس کی چاپ اُبھرتی ہے
چھت پہ کون آتا ہے، سیڑھیاں نہیں کُھلتیں
پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر
کیا قیامتیں گزریں، بستیاں نہیں کُھلتیں